View Abstractہر بڑے ادب اور ادیب کی کامیابی اور جاودانی کی زندہ مثال یہی ہے کہ اس کو ہر نئے علمی نظریے کے مطابق پرکھا اور پڑھا جائے کیوں کہ اسی سے ادب فہمی کا عمل جاری و ساری رہتا ہے اور نئے امکانات کو تلاش کرنے کے مواقع بھی سامنے آتے ہیں۔ اردو ادب کے کم و بیش تمام ناقدین نے غالب کو جدید شاعر تسلیم کرتے ہوئے اُن کے کلام کا جدید تنقیدی نظریات سے جاچنے اور پرکھنے کی کوششیں کی ہیں اور کلام غالب کی نئی نئی جہات کو ابھارا ہے۔اس سے انکار ممکن نہیں کہ غالب ایک جدت پسند شخصیت کے مالک تخلیق کار گزرے ہیں ، جس کی مثالیں ان کی غزلیہ شاعری ، مثنویوں اور خطوط و تقریظوں میں بکھری پڑی ہیں ۔ لیکن کیا غالب دیگر چیزوں کی طرح عورت کے حوالے سے بھی ایک منفرد اور جدید زاویہ نگاہ رکھتے تھے ، اپنے منظوم و منثور کلام میں انہوں نے عورت کے تئیں جو نظریات ، خیالات اور جذبات ابھارے ہیں ،کیا وہ بھی ان کی جدت پسند طبیعت کے ہی غماز ہیں یا انہوں نے بھی عورت کے حوالے اسے روایتی تصور کو آگے بڑھایا ہے جو اردو شاعری کا خاصا گردانا جاتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے کئی ایک اہم پہلوں پر اس تحقیقی مضمون میں زیر بحث لایا گیا ہے جو غالب فہمی کے ضمن میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگا۔