Volume: 1 18 2023

  • Title : جمیلہ خدابخش۔شخصیت اور شاعری
    Author(s) : ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی
    KeyWords : تخیل،مرشد ، کتب بینی ، عقیدت ، آفاقیت ، کلاسکیت ، وجدانی پہلو،صوفیانہ نوعیت، تصوف
    View Full Paper
    View Abstract
    اردو شعر و ادب کی ترقی میں دبستان بہار کی خدمات کو کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ابتدا سے ہی اس سرزمین نے ایسے تخلیق کاروں کو جنم دیا ہے جنہوں نے اپنی صلاحیتوں سے اردو شعر و ادب میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ اس حوالے سے جہاں مرد تخلیق کاروں کے نام گنائے جاسکتے ہیں وہیں خواتین تخلیق کاروں کی نشاندہی بھی از حد لازمی ہے ۔جمیلہ خدا بخش انہیں خواتین تخلیق کاروں کی فہرست میں شامل ایک اہم نام ہے۔موصوفہ کے اب تک کم و بیش آٹھ شعری مجموعے منظرعام پر آئے ہیں جو فکری و فنی اعتبار سے ادبی حلقوں میں اپنی معنویت منوا چکے ہیں۔ زیرِ نظر تحقیقی مضمون میں موصوفہ کی شعری کا تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ مضمون دبستان بہار کے ساتھ ساتھ اردو کے شعری سرمایے میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگا۔

  • Title : پدم شری انور جلال پوری: ایک ذات ایک اِدارہ
    Author(s) : پروفیسر عباس رضا نیر
    KeyWords : مختلف الجہات، مختلف اللسان، آفتاب عالمِ تاب ، لسانی جمہوریت ، تنقیدی شعور
    View Full Paper
    View Abstract
    انور جلال پوری کی شخصیت کے کئی پہلوؤں ہیں۔ وہ بیک وقت ایک منجھے ہوئے شاعر، ماہر استاد ، مقبول ناظم مشاعرہ اور سب سے بڑھ کر ایک جلیل القدر شخصیت گزرے ہیں۔شاعری میں انہوں نے غزل ، نظم اور رباعی وغیرہ جیسی اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کی ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ان کی شاعری میں حیات و کائنات کے اہم اور روشن گوشے اچھوتے انداز میں جگہ پائے ہیں۔امن و سلامتی ، بھائی چارہ ، حب الوطنی، اخلاقی و روحانی اقدار کی تعمیر، اور موجودہ معاشرے میں رہ پائی ہوئی مختلف بداعمالیوں کی فنی نشاندہی ان کے کلام کا خاصا رہا ہے۔ اس تحقیقی مضمون میں انور جلال پوری کی حیات، شخصیت اور کلام سے متعلق تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ یہ تحریر اردو ادب کے قارئین کے حق میں ایک بہترین اضافہ ثابت ہوگی۔

  • Title : امین کامل کی شاعری کا اسلوبیاتی تجزیہ
    Author(s) : ڈاکٹر شفقت الطاف
    KeyWords : کلیدی الفاظ: اسلوبیات، تجزیات، عملی تنقید ، توضیحی، انقلاب آفرین
    View Full Paper
    View Abstract
    اسلوبیات (Stylistics)ادبی تنقید کے جدید نظریوں میں شامل ہے۔ اسلوبیات اس طریقہ کار کا نام ہے جس کے تحت کسی ادبی فن پارے کا نہ صرف معروضی سطح پر تجزیہ کیا جاتا ہے بلکہ اس کی تعمیر میں پنہاں لسانی خصائص کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے۔ 1958ءمیں انڈیانا یویونیورسٹی میں اسلوبیات کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس میں رومن جکوبسن نے اعلان کیا کہ کسی بھی شعری تخلیق کا تجزیاتی عمل لسانی برتاو کے بغیر ناممکن اور ادھوار ہے۔ عملی تنقید، ہیت پسندی، ساختیات اور پسِ ساختیات جیسے انقلاب آفرین لسانی اور فکری رویوں سے اسلوبیاتی تنقید کو بہت زیادہ تقویت ملی کیونکہ ان دبستانوں سے منسلک تمام مفکرین نے متن کو تنقید کا مرکزاور اساس قرار دیا۔ زبان کے مخصوص اور منفرد برتاؤ سے ادبی متن تشکیل دینے کو اسلوب کہہ سکتے ہے۔ زیر بحث مقالے میں ہم امین کامل کے کچھ شعری نمونوں کا اسلوبیاتی تجزیہ داخلی اور تشریحی تنقیدی طریقہ کار کے بجائے معروضی اور توضیحی بنیادوں پر کریں گے۔

  • Title : اقبالؒ :مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی نظر میں
    Author(s) : ڈاکٹرمُعید الظّفر
    KeyWords : علمائے کرام، فکر وفن، فلسفی،بالغ نظر ، قادرالکلام ،زیدوذاہد، عرفان نفس، خودی
    View Full Paper
    View Abstract
    ڈاکٹر سر محمد اقبال ؒ ایک اعلیٰ پایہ کے غزل گو ، نظم نگار، نثر نگار، مفکر ، مدبر اور فلسفی گزرے ہیں۔آپ کی ہر اک تحریر عالم انسانیت کے لیے ایک نایاب سرمایہ ہے۔بالخصوص مسلم قوم کی بیداری اور تابناکی کے حوالے سے انہوں نے جو کارنامے سر انجام دئیے ہیں وہ رہتی دنیا تک ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان کی حیات سے تاایں دم دنیا کے تمام حساس اور باشعور اذہان ان کے چھوڑے سرمایے سے نہ صرف خود کسبِ فیض حاصل کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی افادیت سے روشناس کراتے ہیں۔ مولانا ابوالحسن ندویؒ کا شمار بھی انہیں عبقری اور غم خوار اشخاص میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر وقت خدمت خلق اور خدمت دین میں صرف کیا ہے ۔ ندوی صاحب نے مسلم قوم کی موجودہ حالت کو سدھارنے اور انہیں راہ روشن کی اور ہمنوائی کرنے میں جہاں قرآن و سنت کا سہارا لیا ہے وہیں آپ نے کلام اقبال سے بھی کھل کر استفادہ کیا ہے ۔ اس تحقیقی مضمون میں مولانا ابوالحسن ندوی کی ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبالؒ کے تئیں عقیدت اور ان کی معنویت ، اہمیت اور قدر و قیمت کے حوالے سے بالتفصیل جائزہ پیش کیا جائے گا تاکہ موصوف ندویؒ کے کلام کی ایک مخفی اور قابلِ مطالعہ جہت سے روشناس کیا جاسکے۔

  • Title : مرزا غالب اور انیسویں صدی کی عورت (تانیثی تنقیدی تھیوری کے تناظر میں)
    Author(s) : ڈاکٹر نصرت جبین
    KeyWords : گلشن ناآفریدہ ، جاودانی، ادبی نظریات، جدلیاتی وضع، تنقیدی تھیوری ، تانیثی تنقیدی تھیوری
    View Full Paper
    View Abstract
    ہر بڑے ادب اور ادیب کی کامیابی اور جاودانی کی زندہ مثال یہی ہے کہ اس کو ہر نئے علمی نظریے کے مطابق پرکھا اور پڑھا جائے کیوں کہ اسی سے ادب فہمی کا عمل جاری و ساری رہتا ہے اور نئے امکانات کو تلاش کرنے کے مواقع بھی سامنے آتے ہیں۔ اردو ادب کے کم و بیش تمام ناقدین نے غالب کو جدید شاعر تسلیم کرتے ہوئے اُن کے کلام کا جدید تنقیدی نظریات سے جاچنے اور پرکھنے کی کوششیں کی ہیں اور کلام غالب کی نئی نئی جہات کو ابھارا ہے۔اس سے انکار ممکن نہیں کہ غالب ایک جدت پسند شخصیت کے مالک تخلیق کار گزرے ہیں ، جس کی مثالیں ان کی غزلیہ شاعری ، مثنویوں اور خطوط و تقریظوں میں بکھری پڑی ہیں ۔ لیکن کیا غالب دیگر چیزوں کی طرح عورت کے حوالے سے بھی ایک منفرد اور جدید زاویہ نگاہ رکھتے تھے ، اپنے منظوم و منثور کلام میں انہوں نے عورت کے تئیں جو نظریات ، خیالات اور جذبات ابھارے ہیں ،کیا وہ بھی ان کی جدت پسند طبیعت کے ہی غماز ہیں یا انہوں نے بھی عورت کے حوالے اسے روایتی تصور کو آگے بڑھایا ہے جو اردو شاعری کا خاصا گردانا جاتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے کئی ایک اہم پہلوں پر اس تحقیقی مضمون میں زیر بحث لایا گیا ہے جو غالب فہمی کے ضمن میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگا۔

  • Title : ایسنک مدسلی کی شخصیت کی فہرست سازی اور اس کی معیار بندی
    Author(s) : ڈاکٹر شوکت رشید وانی
    KeyWords :
    View Full Paper
    View Abstract
    ہندوستان کی پہلی سالانہ ذہنی پیمائش کی کتاب کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شخصیت کی ذہانت،تجزیے اور برتاو سے متعلق ہندوستان کی مختلف زبانوں میں متعدد کسوٹیاں آزمائی گئیں ہیں لیکن بالخصوص اردو داں اور جموں و کشمیر کی پڑھی لکھی آبادی کے لیے ایسی کوئی کسوٹی آزمائی نہیں گئی ہے، جو شخصیت کی نفسیاتی جانچ پرکھ کے لیے موزوں ہوتی،حالاں کہ محققین کی سہولیات اور آسانی کے لیے ایسی کسوٹیوں کی اشد ضرورت ہے۔مشاہدے میں آیا ہے کہ بیشتر ایم ۔ فل اور پی ایچ ڈی مقالات میں حقائق کو نظر انداز کر کے ایسے وسائل آزمائے گئے ہیں جو بیرون صورت حال کے پیش نظر تشکیل دیے گئے ہیں اور ہمارے لیے بالکل غیر موافق ہیں۔متنوع تحقیقی معائنوں اور گوگل سرچ انجن کے گہرے مطالعے کے بعد یہ حقیقت ازبر ہوگی کہ ایسنک ماڈسلی کی شخصیت کی فہرست سازی (Eysenck Maudsley Personality Inventory) کا کوئی معیاری ارد ورژن دستیاب نہیں ہے ۔ اس پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے راقم نے مذکورہ شخصیت کی فہرست سازی کا اردو ترجمہ تیار کیا۔

  • Title : نصف آبادی کا پورا کردار (معاشرتی ترقی میں خواتین کشمیر کی حصہ داری کا تجزیہ)
    Author(s) : ڈاکٹر روشن آرا
    KeyWords : مرد حاوی معاشرہ ، تہذیب و سیاست ، انتظامیہ ، تانیثیت، ثقافت ، ادبی اقدار، علمی ترقی
    View Full Paper
    View Abstract
    کاروبارِ زیست میں طبقہ اناث کی شمولیت اور بھر پور کارکردگی کو ہر دور میں اگرچہ چشمِ دیکھا گیا ہے تاہم گزشتہ نصف صدی سے مختلف طرح کی علمی، ادبی ، سماجی، سیاسی اور ثقافتی تحریکیں دنیا کے مختلف خطوں سے ابھریں ہیں جو خواتین کی خدمات کے اعتراف کے لیے کوشاں ہیں۔زیرِ نظر مقالہ اسی سمت میں ایک اہم علمی کاوش ہے جس میں مقالہ نگار نے یوٹی کشمیر میں علمی ، ادبی، سیاسی ، سماجی اور انتظامی سطحوں پر نمائندہ خواتین کی گرانقدر خدمات کا عہد بہ عہد جائزہ پیش کرکے ہماری تاریخ کے اُن پہلووں کو منصہ شہود پر لایا ہے جن پر مرد حاوی مواشرے اور اجبار نے ایک دبیز چادر ڈال رکھی تھی۔اس طرح معاشرتی ترقی و توقیر میں وادی کشمیر کی خواتین کو خدمات کو پیش کرکےاس خطے کی علمی ، ادبی ، سیاسی اور ثقافتی تاریخ کو ازسرِ نو مرتب کرنے پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔یہی مابعدِ جدید تانیثی ڈسکورس کا احتیاج بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔فاضل مقالہ نگار اس اعتبار سے مبارک باد کی مستحق ہے کہ انہوں نے ایک اہم موضوع کو تحقیق و تجزیے کے لیے منتخب کیا ہے۔

  • Title : کلامِ غالب کانوتاریخی تجزیہ
    Author(s) : ڈاکٹر الطاف انجم
    KeyWords : اثر ونفوذ، ناتاریخیت، مقتدرہ طبقہ ، سماجی ادارے، تاریخی متون، ادبی متن، ردِتشکیل
    View Full Paper
    View Abstract
    مابعدِ جدیدیت میں ادب کی تفہیم و تعبیر کے حوالے سے سامنے آنے والے تنقیدی نظریات میں نوتاریخیت ایک اہم مقام کا حامل ہے۔ نوتاریخی طرزِ فکر ادبی اور تاریخی متون کے مابین خیلج کا پاٹنے اور تاریخی متون میں موجود وقفوں اور سکوتیوں کو پُر کرنے پر اصرار کرتی ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس طرزِ تجزیہ کے تحت یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ شاعر یا ادیب کس حد تک اپنے دور کے مقتدرہ سے شعوری اور غیر شعوری طور پر دست و گریباں ہونے کی کوشش کررہا تھا اور اس کوشش میں اسے کہاں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے یا اسے کہاں پر مایوسی ہوئی۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب کے کلام کے نوتاریخی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خود اپنے دور میں مقتدر طبقے کے ساتھ ہم آہنگی کی کوشش کی ہے۔اس تحقیقی مضمون میں غالب کے کلام کا نوتاریخی جائزہ لے کر غالب کے کلام کی نئی جہتوں کی سیر و سیاحت کی کوشش کی گئی ہے۔