Volume: 1 18 2023

  • Title : تقسیم ہند اوراردوناول
    Author(s) : پروفیسرشہاب عنایت ملک
    KeyWords : تقسیمِ وطن، دو قومی نظریے، بربریت، ہجرت، مہاجرین، تہذیب و ثقافت، ادبی روایت، شعور کی رو، ناسٹلجیا
    View Full Paper
    View Abstract
    اس بات سے شاید ہی کسی کو انکار ہوسکتا ہے کہ سن ۷۴۹۱ءمیں پیش آنے والے واقعہ تقسیم ِملک نے نہ صرف ملکی تہذیب و تمدن، سماجی و سیاسی منظرنامے،اخلاقی و مذہبی روایات اور لوگوں کے جذبات، احساسات اور توقعات وغیرہ کوتباہ وبرباد کیابلکہ اس کے اثرات ہمارے ادیبوں ،شاعروں اورفن کاروں پربھی پڑے ۔یوں تخلیق کاروںنے ادب اورزندگی پرازسرنوغورکرناشروع کیا اوراپنی تخلیقات میں فکری طور پرتبدیلی لانے کی کوشش کی۔ ادب کی دوسری اصناف کی طرح تقسیم ہند کے المیے سے ناول بھی بہت زیادہ متاثر ہو ا اور اس حوالے سے بعض سنجیدہ ناول وجودمیں آئے۔اس موضوع سے متعلق تخلیق ہوئے نالوں کی اگرچہ ایک خاصی تعداد موجود ہے لیکن اس تحقیقی مضمون میں چند منتخب ناولوں پر اس سانحہ سے پیدا شدہ مختلف النواع مسائل کے اثرات اور ان کی ترجمانی پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔یہ تحقیقی مضمون اردو ناول کی تنقیدکے حوالے سے ایک قابلِ قدر اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔

  • Title : پدم شری انور جلال پوری: ایک ذات ایک اِدارہ
    Author(s) : پروفیسر عباس رضا نیر
    KeyWords : مختلف الجہات، مختلف اللسان، آفتاب عالمِ تاب ، لسانی جمہوریت ، تنقیدی شعور
    View Full Paper
    View Abstract
    انور جلال پوری کی شخصیت کے کئی پہلوؤں ہیں۔ وہ بیک وقت ایک منجھے ہوئے شاعر، ماہر استاد ، مقبول ناظم مشاعرہ اور سب سے بڑھ کر ایک جلیل القدر شخصیت گزرے ہیں۔شاعری میں انہوں نے غزل ، نظم اور رباعی وغیرہ جیسی اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کی ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ان کی شاعری میں حیات و کائنات کے اہم اور روشن گوشے اچھوتے انداز میں جگہ پائے ہیں۔امن و سلامتی ، بھائی چارہ ، حب الوطنی، اخلاقی و روحانی اقدار کی تعمیر، اور موجودہ معاشرے میں رہ پائی ہوئی مختلف بداعمالیوں کی فنی نشاندہی ان کے کلام کا خاصا رہا ہے۔ اس تحقیقی مضمون میں انور جلال پوری کی حیات، شخصیت اور کلام سے متعلق تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ یہ تحریر اردو ادب کے قارئین کے حق میں ایک بہترین اضافہ ثابت ہوگی۔

  • Title : جمیلہ خدابخش۔شخصیت اور شاعری
    Author(s) : ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی
    KeyWords : تخیل،مرشد ، کتب بینی ، عقیدت ، آفاقیت ، کلاسکیت ، وجدانی پہلو،صوفیانہ نوعیت، تصوف
    View Full Paper
    View Abstract
    اردو شعر و ادب کی ترقی میں دبستان بہار کی خدمات کو کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ابتدا سے ہی اس سرزمین نے ایسے تخلیق کاروں کو جنم دیا ہے جنہوں نے اپنی صلاحیتوں سے اردو شعر و ادب میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ اس حوالے سے جہاں مرد تخلیق کاروں کے نام گنائے جاسکتے ہیں وہیں خواتین تخلیق کاروں کی نشاندہی بھی از حد لازمی ہے ۔جمیلہ خدا بخش انہیں خواتین تخلیق کاروں کی فہرست میں شامل ایک اہم نام ہے۔موصوفہ کے اب تک کم و بیش آٹھ شعری مجموعے منظرعام پر آئے ہیں جو فکری و فنی اعتبار سے ادبی حلقوں میں اپنی معنویت منوا چکے ہیں۔ زیرِ نظر تحقیقی مضمون میں موصوفہ کی شعری کا تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ مضمون دبستان بہار کے ساتھ ساتھ اردو کے شعری سرمایے میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگا۔

  • Title : ڈاکٹرشائشتہ یو سف کی شعری تخلیقات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
    Author(s) : ڈاکٹررضوانہ پروین (ارم)
    KeyWords : علوم و فنون ، ادبیات عالم، صنعتی انقلاب، تانیثی فکر،ماحولیاتی تنقید، ترسیل و ابلاغ، نظمیہ شاعری، تحقیقی معیار
    View Full Paper
    View Abstract
    ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ تانیثی شاعری بھیگتے کاجل اور ہنستے ہوئے لبوں میں دبی دبی سرد آہوں کا استعارہ ہے، تانیثی فکر نے شعری افق پر قوس قزح سے جذبوں کو اچھال کر اردو شاعری کو متنوع موضوعات و افکار، ندرت اسلوب اور نسائی جذبوں کو اپنے مخصوص لب و لہجے میں شاعرانہ پیکر عطا کر کے اردو شاعری کے لیے دریافت کا ایک نیا دریچہ کھول دیا ہے۔ تانیثی شاعری دراصل جدید لب و لہجے میں پدری نظام جبر کے خلاف ایک شعری جہاد سے مماثل ہے۔ متوسط طبقے کی تعلیمیافتہ اور غیر تعلیمیافتہ گھریلو خواتین کی ناآسودہ آرزو ¶ں، تمنا ¶ں، اور گھٹی گھٹی خواہشوں کا ماتم کدہ ہے کہ جہاں انکی سسکیاں، فریادیں احتجاج سب کچھ دفن ہیں۔ تانیثی حقوق کی پامالی، سماجی بدعنوانیاں، اخلاقی پستیاں، مبنی برپدری نظام معاشرے میں خواتین کے ساتھ برپا ہونے والے غیر مساویانہ رویے، نا روا سلوک، رشتوں کی بے حسی، جذباتی، اذہانی، اخلاقی، تعلیمی، معاشی، معاشرتی و جنسی استحصال، خوابوں، آدرشوں اور اعتقادات، متزلزل ہوتے اعتماد کے مسمار ہونے کی اذیتیں بھی تانیثی شاعری کو مترشح کرتی ہیں۔ جدید شاعرات کشور ناہید کے ان جذبوں کی ہم خیال ہیں کہ مجھے جن جذبوں نے خوفزدہ کیا تھا اب میں انکے اظہار سے دوسروں کو خوف سے لرزتا دیکھ رہی ہوں بحرحال نسائی تحریک کی بیداری نے نسائی وجود کو کھلے آسمانوں میں پرواز کرنے کی جرائتیں عطا کیں، چنانچہ گمنامی کے غاروں میں دبی گھٹی گھٹی سسکیوں کو اور تاریکی میں ڈوبی آوازوں کو فلک کی بیکرانیوں سے ہم کنار کیا ہے۔ اردو شاعری میں تانیثی شاعری دریافت کا ایک نیا دریچہ ہے جو اس شعر کا مصداق ہے کہ شب کے سناٹے میں ڈوبی ہوئی آواز ہوں میں اس اندھیرے کے سمندر سے نکالو مجھکو اس مضمون میں جن بنیادی نکات کو تحقیقی و تنقیدی انداز میں سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے وہ یوں ہیںتانیثیت کیا ہے؟، تانیثی شاعری، تاریخ و روایت، مغربی افکار و شعری شعور، فیمنزم کی تحریک، جدید شاعرات اردو ڈاکٹر شائشتہ یوسف کا تعارف، ڈاکٹر شائشتہ کی تخلیقات و شعری کائنات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، ناقدین کی آرائ، ادبی و سماجی خدمات، جدید شعری منظر نامے میں منفرد تانیثی آواز، ڈاکٹر شائشتہ یوسف کی شاعرانہ جہات و انفرادیت، اسلوب نگارش، کلام کا تجزیاتی مطالعہ، اعزازات و انعامات

  • Title : ہندوستان میں اُردو ڈراما شناسی ) اکیسویں صدی کے خصوصی حوالے سے(
    Author(s) : ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری
    KeyWords : تنقیدی دبستان، نظریات، پس ساختیات، ماحولیاتی تنقید، رد تشکیل، ماورائے تنقید، رامائن ، مہابھارت، دیومالائی، اساطیر، ایپک تھیٹر، لایعنی تھیٹر، نکڈ تھیٹر، بانڈپتھر، لوک ناٹک، ڈرامائی روپ،ہندوستانی تھیٹر،نوآبادیات، پارسی تھیٹریکلکمپنیاں
    View Full Paper
    View Abstract
    ڈراما کا شمار اردو ادب کی مقبول اصناف میں ہوتا ہے۔ اردو ادب میں ڈرما کی روایت بہت مضبوط اور توانا ہے۔ کم و بیش تما م صف اوّل کے تخلیق کاروں نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور روایت کو وقار بخشا ہے ۔ لیکن اس صنف ادب کو تحقیقی و تنقیدی سطح پر وہ توجہ حاصل نہیں ہوئی جس کییہ متقاضی ہے ۔ گزشتہ ایک دو صدیوں میں بعض محققین و ناقدین نے اس صنف کو اپنے حیطہتحقیق و تنقید میں لے کر اس صنفِ ادب کی تعریف و توضیح ، اس کی بدلتی شعریات اور ارتقائی تاریخ کے مختلف پہلووں کو سامنے لانے کی کوششیں کی ہیں۔ اس فہرست میں جہاں مختلف یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالز کے نام شامل ہیں وہیں تحقیقی و تنقیدی میدان میں اپنی کمالِ فن کاری کا لوہا منوایا ہے۔ اس تحقیقی مضمون میں اردو ڈراما کی تحقیقی و تنقیدی صورت حال کو زیرِ بحث لایا جائے گا ۔ بیسویں صدی میں بالعموم اور اکیسویں صدی میں بالخصوص جن محققین و ناقدین نے اس صنف ادب کو اپنے موضوع بے طور پر برتا ہے ، ان کی نشاندہی کی جائے گی ۔ ان کی تحقیقی و تنقیدی تصانیف کا غیر جانب دارانہ انداز میں جائزہ لیا جائے گا تاکہ اردو ڈراما کی تحقیقی صورتِ حال کا بھر پور خاکہ سامنے آسکے۔

  • Title : امین کامل کی شاعری کا اسلوبیاتی تجزیہ
    Author(s) : ڈاکٹر شفقت الطاف
    KeyWords : سلوبیات، تجزیات، عملی تنقید ، توضیحی، انقلاب آفرین
    View Full Paper
    View Abstract
    اسلوبیات (Stylistics)ادبی تنقید کے جدید نظریوں میں شامل ہے۔ اسلوبیات اس طریقہ کار کا نام ہے جس کے تحت کسی ادبی فن پارے کا نہ صرف معروضی سطح پر تجزیہ کیا جاتا ہے بلکہ اس کی تعمیر میں پنہاں لسانی خصائص کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے۔ 1958ءمیں انڈیانا یویونیورسٹی میں اسلوبیات کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس میں رومن جکوبسن نے اعلان کیا کہ کسی بھی شعری تخلیق کا تجزیاتی عمل لسانی برتاو کے بغیر ناممکن اور ادھوار ہے۔ عملی تنقید، ہیت پسندی، ساختیات اور پسِ ساختیات جیسے انقلاب آفرین لسانی اور فکری رویوں سے اسلوبیاتی تنقید کو بہت زیادہ تقویت ملی کیونکہ ان دبستانوں سے منسلک تمام مفکرین نے متن کو تنقید کا مرکزاور اساس قرار دیا۔ زبان کے مخصوص اور منفرد برتاؤ سے ادبی متن تشکیل دینے کو اسلوب کہہ سکتے ہے۔ زیر بحث مقالے میں ہم امین کامل کے کچھ شعری نمونوں کا اسلوبیاتی تجزیہ داخلی اور تشریحی تنقیدی طریقہ کار کے بجائے معروضی اور توضیحی بنیادوں پر کریں گے۔

  • Title : اردو اور ہندی کے صوتی وقواعدی اشتراک پر ایک نظر
    Author(s) : ڈاکٹر محمد حسین زرگر
    KeyWords : ڈاکٹر محمد حسین زرگر شورسینی اپ بھرنش، کھڑی بولی، جنس ، فعل ، بولیاں ، زبانیں ، اشتراک ، قواعد
    View Full Paper
    View Abstract
    ہند آریائی سرچشمہ سے پیدا ہونے والی اُردو اور ہندی کی نشونما اس طور پر ہوئی ہے کہ موجودہ صورتحال میں اب یہ دو آزاد مستقل باالذات اور الگ الگ زبانیں کہلائی جاتی ہیں۔ ہندی اپنا فیضان سنسکرت سے اور اردو پراکرتوں کے علاوہ عربی اور فارسی سے حاصل کرنے لگی۔ اس طرح دونوں کے لسانی دھاروں کے دو مختلف سمتوں میں بہنے سے اگر چہ دو اہم لسانی اور ادبی روایتیں وجود میں آئیں، جس کی وجہ سے لفظیات میں خاصا فرق ہے تاہم دونوں زبانوں کے ارتقا کی کڑیاں ایک دوسرے سے اس طرح جڑی ہوئی ہیں کہ ایک دوسری سے بے نیاز نہیں ہوسکتیں۔نسبتی اعتبار سے سگی بہنیں ہونے کی وجہ سے دونوں میں گہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں اردو اور ہندی کے صوتی اور قواعدی اشتراک کی مختلف صورتوں کو پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

  • Title : اقبالؒ :مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی نظر میں
    Author(s) : ڈاکٹرمُعید الظّفر
    KeyWords : علمائے کرام، فکر وفن، فلسفی،بالغ نظر ، قادرالکلام ،زیدوذاہد، عرفان نفس، خودی
    View Full Paper
    View Abstract
    ڈاکٹر سر محمد اقبال ؒ ایک اعلیٰ پایہ کے غزل گو ، نظم نگار، نثر نگار، مفکر ، مدبر اور فلسفی گزرے ہیں۔آپ کی ہر اک تحریر عالم انسانیت کے لیے ایک نایاب سرمایہ ہے۔بالخصوص مسلم قوم کی بیداری اور تابناکی کے حوالے سے انہوں نے جو کارنامے سر انجام دئیے ہیں وہ رہتی دنیا تک ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان کی حیات سے تاایں دم دنیا کے تمام حساس اور باشعور اذہان ان کے چھوڑے سرمایے سے نہ صرف خود کسبِ فیض حاصل کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی افادیت سے روشناس کراتے ہیں۔ مولانا ابوالحسن ندویؒ کا شمار بھی انہیں عبقری اور غم خوار اشخاص میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر وقت خدمت خلق اور خدمت دین میں صرف کیا ہے ۔ ندوی صاحب نے مسلم قوم کی موجودہ حالت کو سدھارنے اور انہیں راہ روشن کی اور ہمنوائی کرنے میں جہاں قرآن و سنت کا سہارا لیا ہے وہیں آپ نے کلام اقبال سے بھی کھل کر استفادہ کیا ہے ۔ اس تحقیقی مضمون میں مولانا ابوالحسن ندوی کی ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبالؒ کے تئیں عقیدت اور ان کی معنویت ، اہمیت اور قدر و قیمت کے حوالے سے بالتفصیل جائزہ پیش کیا جائے گا تاکہ موصوف ندویؒ کے کلام کی ایک مخفی اور قابلِ مطالعہ جہت سے روشناس کیا جاسکے۔

  • Title : مرزا غالب اور انیسویں صدی کی عورت (تانیثی تنقیدی تھیوری کے تناظر میں)
    Author(s) : ڈاکٹر نصرت جبین
    KeyWords : گلشن ناآفریدہ ، جاودانی، ادبی نظریات، جدلیاتی وضع، تنقیدی تھیوری ، تانیثی تنقیدی تھیوری
    View Full Paper
    View Abstract
    ہر بڑے ادب اور ادیب کی کامیابی اور جاودانی کی زندہ مثال یہی ہے کہ اس کو ہر نئے علمی نظریے کے مطابق پرکھا اور پڑھا جائے کیوں کہ اسی سے ادب فہمی کا عمل جاری و ساری رہتا ہے اور نئے امکانات کو تلاش کرنے کے مواقع بھی سامنے آتے ہیں۔ اردو ادب کے کم و بیش تمام ناقدین نے غالب کو جدید شاعر تسلیم کرتے ہوئے اُن کے کلام کا جدید تنقیدی نظریات سے جاچنے اور پرکھنے کی کوششیں کی ہیں اور کلام غالب کی نئی نئی جہات کو ابھارا ہے۔اس سے انکار ممکن نہیں کہ غالب ایک جدت پسند شخصیت کے مالک تخلیق کار گزرے ہیں ، جس کی مثالیں ان کی غزلیہ شاعری ، مثنویوں اور خطوط و تقریظوں میں بکھری پڑی ہیں ۔ لیکن کیا غالب دیگر چیزوں کی طرح عورت کے حوالے سے بھی ایک منفرد اور جدید زاویہ نگاہ رکھتے تھے ، اپنے منظوم و منثور کلام میں انہوں نے عورت کے تئیں جو نظریات ، خیالات اور جذبات ابھارے ہیں ،کیا وہ بھی ان کی جدت پسند طبیعت کے ہی غماز ہیں یا انہوں نے بھی عورت کے حوالے اسے روایتی تصور کو آگے بڑھایا ہے جو اردو شاعری کا خاصا گردانا جاتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے کئی ایک اہم پہلوں پر اس تحقیقی مضمون میں زیر بحث لایا گیا ہے جو غالب فہمی کے ضمن میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگا۔

  • Title : تعلیمی نظام میں مصنوعی ذہانت کا کردار و امکانات
    Author(s) : ڈاکٹر نوشاد حسین ، محمد مشاق
    KeyWords : آئی سی ٹی، مصنوعی ذہانت، آن لائن تعلیم، تعلیمی نظام، مصنوعی ذہانت
    View Full Paper
    View Abstract
    معلوماتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجییعنی آئی سی ٹی (ICT) نے زندگی کے تمام گوشوں میں اپنی افادیت ثابت کی ہے۔ آئی سی ٹی ہماری زندگی کا جزو لاینفک بن گئی ہے۔ اس نے ہمارے کام کو سہل تر و موثر تر بنایا ہے۔ کام کو موثر تر بنانے میں کمپیوٹر کی مصنوعی ذہانت کا کلیدیکردار رہا ہے۔ تعلیم کا گوشہ بھی اس سے مستثنی نہیں ہے۔ تعلیم اور ٹکنالوجی دونوں ایک دوسرے کے تکملہ و فروغ میں معاون ہیںاور ان کے درمیان تعلق دو طرفہ ہے۔ ٹکنالوجی نے تعلیم کے مکمل نقطہ نظر کو تبدیل کر دیا ہے۔۔ یہ تعلیم کے لیے ایک فعال پلیٹ فارم تیار کرنے کا ایک مخصوص طریقہ ہے۔ آج ترقی کے اس تیز ترین دور میں آموزش کے عمل، جدید طریقہ تدریس ، حکمت عملیوں اور تعین قدر میں آئی سی ٹی کے اطلاق کی مہارت و استعداد حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ تعلیمی نظام کو مزید موثر بنایا جا سکے۔مصنوعی ذہانت کمپیوٹر سسٹم کا ایک اہم نظریہ اور کمپوٹر و اسمارٹ فون کو مزیدuser friendly بنانے کی اساس ہے۔ اس شعبے میں نت نئی تحقیقات و ترقیاں ہو رہی ہیں۔ عام طور پر اس کے ذریعے انسانی ذہانت کے متبادل امورمثلاً شناخت، انتخاب، فیصلہ سازی، وغیرہ انجام دیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مناسب طریقہ کار کی شناخت و انتخاب، فیصلہ سازی، بصری ادراک، انسانی ذہانت کے ایسے اہم کام ہیں جو کمپیوٹر کی مصنوعی ذہانت بھی کر سکتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت دنیا کے اہم جدید رجحانات میں سے ایک ہے۔ اب ہمارے پاس ایسے کمپیوٹر ہیں جو ویڈیویا تصویر پر موجود اشیاءکو دیکھ اور پہچان سکتے ہیں۔ زبان کی پروسیسنگ بھی بڑی ترقی کر رہی ہے، لہذا مشینیں ہماری آوازوں کو سمجھ سکتی اور ہم سے بات کر سکتی ہیں۔ رہنمائی کے کمپیوٹیشنل ماڈلز بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت ایک نئی صنعت کے مرکز کے طور پر تصور کی جا رہی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی2020 MHRDنے آن لائن تعلیم کے فروغ کی سفارش کی ہے۔ اس میں ڈیجیٹل انڈیا مہم اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا مہم قوم کو ڈیجیٹل طور پر با اختیار معاشرہ بنانے اور علمی معیشت میں تبدیل کرنے میں نہایت ہی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی ریاستوں نے ڈجیٹل انڈیاکے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے 2030 عیسوی تک کا ہدف رکھا ہے اور اسے بروئے کار لانے کے لئے مصنوعی ذہانت اورٹیکنالوجی کی استعداد کے فروغ کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس طرح تعلیمی سیاق و سباق میں مصنوعی ذہانت کے اطلاق کو یقینی بنانے کی حتی المکان کوشش بھی کی جا رہی ہے۔حالاںکہ ماہرین تعلیم کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال ابھی تک واضح نہیں ہے کہ تعلیمی نظام میں اس کا وسیع پیمانے پر فائدہ کیسے اٹھایا جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ تعلیم میں مصنوعی ذہانت درس و تدریس کو براہ راست کیسے متاثر کر سکتی ہے۔ ان جہات میںمزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ یہ مقالہ مصنوعی ذہانت کا تعلیمی شعبے میں ممکنہ اطلاق کی جہات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اس مقالہ کا مقصد تعلیمی نظام میں مصنوعی ذہانت کے کردار اور اہمیت کا انکشاف کرنا ہے۔

  • Title : ایسنک مدسلی کی شخصیت کی فہرست سازی اور اس کی معیار بندی
    Author(s) : ڈاکٹر شوکت رشید وانی
    KeyWords :
    View Full Paper
    View Abstract
    ہندوستان کی پہلی سالانہ ذہنی پیمائش کی کتاب کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شخصیت کی ذہانت،تجزیے اور برتاو سے متعلق ہندوستان کی مختلف زبانوں میں متعدد کسوٹیاں آزمائی گئیں ہیں لیکن بالخصوص اردو داں اور جموں و کشمیر کی پڑھی لکھی آبادی کے لیے ایسی کوئی کسوٹی آزمائی نہیں گئی ہے، جو شخصیت کی نفسیاتی جانچ پرکھ کے لیے موزوں ہوتی،حالاں کہ محققین کی سہولیات اور آسانی کے لیے ایسی کسوٹیوں کی اشد ضرورت ہے۔مشاہدے میں آیا ہے کہ بیشتر ایم ۔ فل اور پی ایچ ڈی مقالات میں حقائق کو نظر انداز کر کے ایسے وسائل آزمائے گئے ہیں جو بیرون صورت حال کے پیش نظر تشکیل دیے گئے ہیں اور ہمارے لیے بالکل غیر موافق ہیں۔متنوع تحقیقی معائنوں اور گوگل سرچ انجن کے گہرے مطالعے کے بعد یہ حقیقت ازبر ہوگی کہ ایسنک ماڈسلی کی شخصیت کی فہرست سازی (Eysenck Maudsley Personality Inventory) کا کوئی معیاری ارد ورژن دستیاب نہیں ہے ۔ اس پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے راقم نے مذکورہ شخصیت کی فہرست سازی کا اردو ترجمہ تیار کیا۔

  • Title : منور رانا کے منظوم و منثور کلام کا فکری و فنی جائزہ
    Author(s) : ڈاکٹر جاں نثار عالم
    KeyWords : منور رانا کی شخصیت اپنی مثال آپ ہے ۔ انہوں نے جس ہنر مندی سے روایتی موضوعات کو نئے اسلوب کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا وہ انہی کا خاصہ ہے ۔آپ اردو شعر وادب میں اپنے منفرد لب ولہجے سے ہی پہچانے جاتے ہیں ۔ اردو غزل جیسی ہر دلعزیز صنف سخن میں رنگا رنگ موضوعات کو پیش کرنے کے دوش بہ دوش ارد ونثر میں انشا پردازی کے اعلیٰ نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں ظرافت کی چاشنی بھی ہے اور سنجیدگی وفکری گیرائی وگہرائی بھی۔الغرض منور رانا عہد حاضر کے ایک ممتاز ومعروف شاعر ہی نہیں بلکہ عمدہ نثر نگار بھی ہیں۔اس تحقیقی مضمون میں منور رانا کی شاعری اور نثر نگاری کا فکری و فنی جائزہ پیش کرنے کی سعی جائے گی جو ایک اضافے کا موجب ہوگا۔
    View Full Paper
    View Abstract
    سیاسی ند نظمی، روحانی اقدار، تقسیم ملک، ہجرت، فسادات، اسلوب ، طنز و مزاح

  • Title : حروف تہجی۔ ایک جائزہ
    Author(s) : ڈاکٹر فیض قاضی آبادی
    KeyWords : حروف تہجی، املا، اصطلاحات، واو معروف، واو مجہول، ترسیل ، ابلاغ، تقریری زبان، اشاراتی زبان
    View Full Paper
    View Abstract
    انسان اپنے جذبات، احساسات، خیالات اور محسوسات و تجربات کو دوسروں تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ یہ عمل اسے ذہنی و جسمانی طور پر ترو تازگی بخشتا ہے۔ یہ سلسلہ ابتدا سے ہی قائم و دائم ہے اور تا قیام قیامت برقرار رہے گی ۔ ترسیل و ابلاغ کا یہ نظام اگرچہ کئی ایک طریقوں سے ممکن ہے لیکن سب سے موثر اور کامیاب ذریعہ بہرحال زبان کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ زبان کا اپنا ایک نظام ہے جو اپنے اصول و ضوابط رکھتا ہے۔ زبان کی کئی صورتیں ہیں اور ان صورتوں میں ایک اہم اور مقبولِ عام صورت ”تحریری زبان“ کی ہے ۔ اس تحقیقی مضمون میں بالخصوص تحریری زبان سے متعلق بعض بنیادی لوازمات کو زیر بحث لانا مقصود رہے گا۔ اردوحروف تہجی کا تعارف ، تاریخی پس منظر، اور اقسام وغیرہ جیسے پہلووں کو استدلالی انداز میں سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ تحقیقی مضمون اردو حروف تہجی کے اسرارو رموز کو سمجھنے میں بلاشبہ ایک اہم اضافہ ثابت ہوگا۔

  • Title : نصف آبادی کا پورا کردار (معاشرتی ترقی میں خواتین کشمیر کی حصہ داری کا تجزیہ)
    Author(s) : ڈاکٹر روشن آرا
    KeyWords : مرد حاوی معاشرہ ، تہذیب و سیاست ، انتظامیہ ، تانیثیت، ثقافت ، ادبی اقدار، علمی ترقی
    View Full Paper
    View Abstract
    کاروبارِ زیست میں طبقہ اناث کی شمولیت اور بھر پور کارکردگی کو ہر دور میں اگرچہ بہ چشمِ کمتر دیکھا گیا ہے تاہم گزشتہ نصف صدی سے مختلف طرح کی علمی، ادبی ، سماجی، سیاسی اور ثقافتی تحریکیں دنیا کے مختلف خطوں سے ابھریں ہیں جو خواتین کی خدمات کے اعتراف کے لیے کوشاں ہیں۔زیرِ نظر مقالہ اسی سمت میں ایک اہم علمی کاوش ہے جس میں مقالہ نگار نے یوٹی کشمیر میں علمی ، ادبی، سیاسی ، سماجی اور انتظامی سطحوں پر نمائندہ خواتین کی گرانقدر خدمات کا عہد بہ عہد جائزہ پیش کرکے ہماری تاریخ کے اُن پہلووں کو منصہ شہود پر لایا ہے جن پر مرد حاوی مواشرے اور اجبار نے ایک دبیز چادر ڈال رکھی تھی۔اس طرح معاشرتی ترقی و توقیر میں وادیکشمیر کی خواتین کو خدمات کو پیش کرکےاس خطے کی علمی ، ادبی ، سیاسی اور ثقافتی تاریخ کو ازسرِ نو مرتب کرنے پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔یہی مابعدِ جدید تانیثی ڈسکورس کا احتیاج بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔فاضل مقالہ نگار اس اعتبار سے مبارک باد کی مستحق ہے کہ انہوں نے ایک اہم موضوع کو تحقیق و تجزیے کے لیے منتخب کیا ہے۔

  • Title : مسلم خواتین کا حقیقی میدان عمل: گھر کے اندر یا گھر کے باہر
    Author(s) : ارشید احمد شیخ
    KeyWords : تقسیم کاری ، شریعت ، بدعت ، اقتصادی مساوات ، روحانی تسکین، زچگی ، تعلیم و تربیت، نسل و خاندان
    View Full Paper
    View Abstract
    اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے جو اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرتا ہے۔ یہ مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے خواہ وہ سیاسی ہو، معاشی ہو، اخلاقی ہو، سماجی ہو یا خاندانی ہو۔ اس کی تعلیمات ہر کسی انسان کے لیے ہے خواہ وہ مسلمان ہویا غیر مسلم، چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہویا غریب، مریض ہو یا صحت مند، گورا ہو یا کالا، عربی ہو یا عجمی، مرد ہو یا عورت۔ اسی طرح اس کے نزدیک قابل عزت وہ عورت یا مرد ہے جو ایمان لا کر متقیانہ زندگی گزارے، جو اس کی تعلیمات پر من و عن عمل کرے اور جو اللہ کی رضا کواپنے تمام اعمال میں مقصود ٹھہرائے۔ مگر مسلم خواتین کی بابت عرصہ دراز سے لوگ افراط و تفریط کے شکار ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام نے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو پستہ درجہ دیا ہے، اسی طرح انہیں بنیادی انسانی حقوق اور اختیار سے محروم کیا ہے۔ اسلام کی روح سے مرد اور عورت برابر ہے مگر ان کا میدان عمل جدا جدا رکھا گیا ہے۔ دونوں کو الگ الگ کام اور ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں۔ اس نے مرد کو گھر سے باہر کے کام اور اہل و عیال کی کفالت کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور عورت کو گھر کے اندر کے کام اور اولاد کی پرورش وتربیت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ اسی وجہ سے عورت پر گھر سے باہر کی بہت سی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈالا گیا ہے۔ کاموں کییہ تقسیم کاری خاندان کی خوشگواری کے لیے ضروری ہے۔اس مقالے میں اسلامی تعلیمات کی رو سے عورتوں کے مقام و مرتبے کا تعین کرنا مقصود رہے گا۔

  • Title : بیجاپورکی دکنی مثنویوں میں اخلاقیات (نجات نامہ اور مثنوی ہاشمی بیجاپوری کے حوالے سے)
    Author(s) : ڈاکٹر سید علیم اللہ حسینی
    KeyWords : اہلِ تصوف، تصوف ، اسلامی طرزِ فکر ،اخلاقی اقدار، روحانی تسکین
    View Full Paper
    View Abstract
    اردوزبان و ادب کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس کا ابتدائی زمانہ مذہبی تصانیف و تالیفات سے بھرا پڑا ہے ۔ عادل شاہی اور قطب شاہی سلاطین کی قیام پذیری کے بعد ادبی تخلیقات کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہوا جو تاایں دم جاری و ساری ہے ۔ان دو سلطنوں کے سربراہ جہاں خود شعر و شاعری کے شیدائی گزرے ہیں وہیں ان کی سرپرستی سے دنیا جہاں سے ادباءو شعرا یہاں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے رہے۔ ان ہی تخلیق کاروں میں امین ایاغی اور ہاشمی بیجاپوری کے نام اہمیت کے حامل ہیں ۔ان کی مثنویاں اردو کے کلاسیکی ادب کا ناقابلِ فراموش سرمایہ ہیں ۔ یہ مثنویاں جہاں فنی اعتبار سے اپنا وقار و اعتبار رکھتی ہیں وہیں فکری سطح پر بھی ان کی معنویت میں روزوں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے ۔اس مضمون میں امین ایاغی اور ہاشمی بیجاپوری کی مثنیوں کے ایک اہم فکری گوشے کو نمودار کرنے کیکوشش کی گئی ہے جو اس مضمون کو تحقیقی و تنقیدی اعتبار سے ایک اضافے کی سند عطا کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔

  • Title : غلام سرور ہاشمی کی شعری کائنات
    Author(s) : ڈاکٹر اسما بدر
    KeyWords : سیاسی منظرنامہ، حب الوطنی،فکری رنگا رنگی، روحانی زوال، بیانیہ اسلوب ، موسیقیت
    View Full Paper
    View Abstract
    غلام سرور ہاشمی رواں صدی میں ابھرنے اور اپنی معنویت منوانے والے غزل و نظم گو شعرا میں ایک اہم نام ہیں۔موصوف کے اب تک تین شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں۔یہ تینوں مجموعے ان کی غزلیہ ، نظمیہ ، نعتیہ اور حمدیہ اشعار پر مشتمل ہیں۔ان کی غزلیں اور نظمیں موضوعاتی اور ہئیتی اعتبار سے رنگا رنگ تجربات کو محیط ہیں۔ دور حاضر میں ملک و قوم کو درپیش طرح طرح کے مسائل خواہ وہ سیاسی ہو یا سماجی، معاشی ہو یا اقتصادییا پھر مذہبی و تعلیمی ان کی شاعری میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر جگہ پائے ہیں۔ اس تحقیقی مضمون میں غلام سرور ہاشمی کے منظوم کلام کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی سعی کی ہے۔

  • Title : کلامِ غالب کانوتاریخی تجزیہ
    Author(s) : ڈاکٹر الطاف انجم
    KeyWords : اثر ونفوذ، ناتاریخیت، مقتدرہ طبقہ ، سماجی ادارے، تاریخی متون، ادبی متن، ردِتشکیل
    View Full Paper
    View Abstract
    مابعدِ جدیدیت میں ادب کی تفہیم و تعبیر کے حوالے سے سامنے آنے والے تنقیدی نظریات میں نوتاریخیت ایک اہم مقام کا حامل ہے۔ نوتاریخی طرزِ فکر ادبی اور تاریخی متون کے مابین خیلج کا پاٹنے اور تاریخی متون میں موجود وقفوں اور سکوتیوں کو پُر کرنے پر اصرار کرتی ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ اس طرزِ تجزیہ کے تحت یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ شاعر یا ادیب کس حد تک اپنے دور کے مقتدرہ سے شعوری اور غیر شعوری طور پر دست و گریباں ہونے کی کوشش کررہا تھا اور اس کوشش میں اسے کہاں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے یا اسے کہاں پر مایوسی ہوئی۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب کے کلام کے نوتاریخی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خود اپنے دور میں مقتدر طبقے کے ساتھ ہم آہنگی کی کوشش کی ہے۔اس تحقیقی مضمون میں غالب کے کلام کا نوتاریخی جائزہ لے کر غالب کے کلام کی نئی جہتوں کی سیر و سیاحت کی کوشش کی گئی ہے۔