Paper

  • Title : اداریہ
    Author(s) : الطاف انجم
    KeyWords :
    View Full Paper

  • Title : موت کا زندگی سے مکالمہ:بلراج مین را کا افسانہ
    Author(s) : ناصر عباس نیر
    KeyWords : علامت نگاری ، جدیدیت ، مابعد جدیدیت ، تجریدیت، اشتراکی حقیقت نگاری ، جادوئی حقیقت نگاری ، فکشن شعریات ، جنسی نفسیات ، فحاشیت ، بیگانگیت ، عظیم انسانی صداقت ، جدلیات ، لاشعوری محرکات ، آئرنی ، سسی فس۔
    View Full Paper
    View Abstract
    بلراج مینرا کا تعلق جدیدیت کے دور کے اُن افسانہ نگاروں سے ہے جو جدید افسانے کی شعریات ترتیب دینے والے ہر اول دستے میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ مینرا کی افسانوی کائنات اردو کے علامتی افسانوی ادب کا ایک اہم اور منفرد حصہ ہے ۔ اردو کے ممتاز نقاد ڈاکٹر نیر عباس نے اس مقالہ بعنوان "موت کا زندگی سے مکالمہ :بلراج مینرا کا افسانہ" میں مینرا کی افسانہ نگاری کا نہایت ہی باریک بینی اور غیر جانب داری کے ساتھ تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے ۔مقالہ نگار نے علامتی افسانے کی شعریات کو زیرِ بحث لاتے ہوئے مینرا کے افسانوں پر اس کا انطباق کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ اس کے علاوہ مینرا کے وہ افسانے جو علامتی ہیں ، بھی زیرِ بحث لائے گئے ہیں ۔ مثلاً "بھاگوتی"،"دھن پتی "، "آسارام "، "غم کا موسم"، جسم کے جنگل میں ہر لمحہ قیامت ہے مجھے"۔ بنیادی طور پر ڈاکٹر ناصر عباس نیّرفکشن کی شعریات کے ایک اہم ناقد کی حیثیت سے اپنا وجود مقتدر ادبا کے درمیان منواچکے ہیں ، اسی لیے انھوں نے جس بے باکی اور دقتِ نظر کے ساتھ مینرا کے افسانوں کا جائزہ لیا ہےاور ہر ذیلی پہلو پر جو بسیط و عمیق مطالعہ پیش کیا ہے، اس کے لیے اِن کے سامنے کوئی دوسرا نقاد مشکل سے ہی کھڑا ہوسکتا ہے ۔مقالہ نگار نے اپنی مخصوص تنقیدی ڈکشن کے استعمال سے مینرا کے افسانہ کے تجزیوں کو جاندار بنایا ہے ۔اس طرح یہ مقالہ فکشن کی تنقید سے دلچسپی رکھنے والے ہر اُس طالبِ علم اور استاد کے لیے غیر معمولی طور پر اہم ہے جو فکشن شناسی میں اپنا مستقبل چاہتا ہے ۔

  • Title : دوگززمین ":ہجرت کے المیے کا منظر نامہ
    Author(s) : اسلم آزاد
    KeyWords : تحریک خلافت، مسلم لیگ، قیام بنگلہ دیش، حقیقت نگاری ، سیکولرزم ، آزادی ہند، تقسیم برصغیر ، فرقہ وارانہ فسادات، کانگرسی سیاست، علاقائیت ، معاشی عدمِ استحکام ، تخلیقی بصیرت ، تخیلی قوت ، ملکی اتحاد۔
    View Full Paper
    View Abstract
    بیسویں صدی کے ربع آخر میں اردو فکشن کے دامن پر جن تخلیق کاروں نے سلماں ستارے ٹانکنے کی کوشش کی اُن میں عبد الصمد یقیناً ایک اہم نام ہے ۔ یوں تو عبدالصمد نے افسانہ نویسی میں بھی اپنے فکری اور جمالیاتی جوہر کو آشکار کیا لیکن مجموعی طور پر ناول ہی اُن کی لسانی فن کاری اور وسیع کینوس کو سمیٹنے کی ہنر مندی کا شناخت نامہ متصور کیا جاتا ہے ۔ تحریکِ خلافت ، برصغیر کی آزادی ، تقسیمِ ملک ، فسادات ، ہجرت اور قیامِ بنگلہ دیش ان کے اہم موضوعات میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ ذیرِ نظر مضمون میں پروفیسر اسلم آزاد نے عبدالصمدکے مشہور ناول "دو گز زمین " کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ مقالہ نگار نے تجزیاتی مطالعہ کے دوران ناول کے جن پہلووں پر توجہ کی ان میں ہندوستان میں مسلمانوں کی بے وقعتی اور بے بسی ، فرقہ وارانہ فسادات ، ہجرت کا کرب ، کانگریسی سیاست کی بوالعجبیاں ، مسلم لیگی سیاست دانوں کی اٹھکھیلیاں، سراغ سراں اداروں کی پریشان کن حرکتیں ، لوٹ مار ، ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی پستی ، مغرب پاکساتن میں مہاجروں کی اجنبیت بطور ِ خاص اہم ہیں۔مقالہ ناگار کے مطابق ناول نگار نے ان اہم موضوعات کو اپنی تخلیقی فن کاری کے ذریعے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔چوں کہ ناول نگار خود سیاسیات کے مدرس ہیں اس لیے انھوں نے "دوگززمین" میں آزدای ہند سے چند برس قبل سے لے کر قیام بنگلہ دیش تک کی سیاست کا مربوط نقشہ کھینچا ہے ۔ مضمون نگار نے ناول کے بنیادی اور ذیلی کرداروں کے حوالے سے اپنی بات کہنے کی کوشش کی ہے ۔ ادارہ"ترسیل" پُر امید ہیں کہ یہ مضمون فکشن کے شائقین کے لیے اہم ثابت ہوگا ۔

  • Title : گردش رنگ چمن :ماضی کی بازیافت یا ماضی پرستی
    Author(s) : خالد اشرف
    KeyWords : تقسیمِ برصغیر ، فکشن ، متوسطہ طبقہ ، طبقہ اشرافیہ، سوانحی ناول ، رپورتاژ، اودھی تہذیب ، آفاقیت ، مغرب پرستی ، فرقہ واریت ، فسادات ، تصوف
    View Full Paper
    View Abstract
    اردو فکشن کی تاریخ قرۃ العین حیدر کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے ۔ موصوفہ نے ناول ، افسانہ ، رپوتاژ، سفرنامہ، صافت میں غیر معمولی حد تک اپنی فنی اور تخلیقی بصیرت کا اظہار نہایت ہی فکری عمدگی اور جمالیاتی پختگی کے ساتھ کیا ہے۔انہوں نے کم نصف صدی تک اردو فکشن پر حکمرانی کی ۔ تقسیمِ ہند ، فسادات اور ہجرت کے موضوع پر ان کا ناول " میرے بھی صنم خانے" ادبی اُفق پر ان کی شاندار آمد پر دال ہے۔موضوعاتی اعتبار سے عینی نے اودھ کے جاگیردارانہ معاشرے سے وابستہ یادوں کو اپنے تخلیقی فن پاروں میں جگہ دی ہےبلکہ ان پر یہ بھی اعتراض کیا جارہا ہے کہ ان کے ادب میں متوسط اور نچلے طبقے کے کرداروں کا گزر ممکن نہیں اور نہ ہی یہ طبقات ان کی توجہ کے مستحق قرار پائے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ عینی کے یہاں ماضی پرستی اس حد تک غالب آگئی ہے کہ اُن کا ہر فن پارہ ناسٹلجیائی عناصر سے بھر پور ہے۔ ڈاکٹر خالد اشرف نے اس مقالے میں "گردشِ رنگِ چمن" کے تحت قرۃالعین حیدر کی ناسٹلجیائی ذہنیت کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انھوں نے قرۃ العین حیدر کے بورژوا طبقے سے ہمدردی کو مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ مقالہ فکشن سے دلچپسی رکھنے والوں کے لیے بالعموم اور عینی کے فکر و فن سے تعلق رکھنے والوں کے لیے بالخصوص اہمیت کا حامل ہے ۔ مقالہ نگار نے قرۃ العین حیدر کے متون کے برمحل حوالے دے کر اپنی بات کو موثر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ادارہ ترسیل کو یہ معلوماتی مقالہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے مسرت ہورہی ہے۔

  • Title : جانثار کی ادبی قدروقیمت کے تعین کی کوشش
    Author(s) : انور ظہیر انصاری
    KeyWords : ترقی پسند تحریک ، علی گڑھ میگزین ، انجمن اردوئے معلیٰ، انقلاب ، احتجاجی ادب ، سرمایہ داریت ، تغزل ، سماجی اقدار ، تہذیبی تشخص ، شعریات ، نظمیہ آہنگ ، ماضی پرستی ، مارکسیت ، اشتراکیت ، روشن خیالی
    View Full Paper
    View Abstract
    جاں نثار اختر (8فروری 1914ء تا 18 اگست 1976ء ) اپنے دلفریب لب و لہجے اور دل پذیر موضوعات کی بدولت ادبی سطح پر مقبول رہے ۔ ان کی شہرت کا ڈھنکا یکساں طور پر فلمی دنیا میں بھی بجتا رہا۔ جاں نثار اختر کا شمار ترقی پسند شعرا کے ہر اول دستے میں کیا جاتا ہے۔ ان کی ساری زندگی عوامی جدوجہد اور مزدور تحریکات سے وابستگی سے عبارت ہے ۔ ان کے اور صفیہ اختر کے مابین مکاتیب کا سلسلہ کئی سالوں تک چلتا رہا اور جو ادیبوں کی ازدواجی زندگی کے کھٹے میٹھے پہلووں کو ادبی اور جمالیاتی معیار و وقار کے ساتھ آشکار کرتا ہے۔زیرِ نظر مقالہ میں پروفیسر انور ظہیر انصاری نے جاں نثار اختر کی شخصیت کے اَن چھوئے پہلووں سے امتدادِ زمانہ کی نقاب سرکاتے ہوئے ان کی ادبی قدر و قیمت کے تعین کی بھی قابلِ قدر کوشش کی ہے ۔ چوں کہ مختصر مقالہ کسی بڑے ادیب کی شخصیت اور ادبی خدمات کے بھرپور جائزے کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لیے مقالہ نگار نے جاں نثار اختر کی حیات اور ادبی خدمات کے اہم ترین پہلووں کو دائرہ تحقیق و تنقید میں لانے کی مستحسن کوشش کی ہے۔ اس مقالے میں شاعر کے شعری سفر کا جائزہ لیتے ہوئے فلمی دنیا سے وابستہ ان کے یادگار واقعات کو بھی قلم بند کیا گیا ہے۔ ہم عسر ترقی پسند شعرا ساحر لدھیانوی، مجاز لکھنوی، سردار جعفری اور جاں نثار اختر کے مابین شعری اور فکری مماثلت بھی مقالے کا حصہ ہے ۔مقالہ نگار نے جہاں جاں نثار اختر کی انقلابی ، مزاحمتی اور احتجاجی شاعری پر قلم اٹھایا ہے وہیں عملی سیاست سے ان کی وابستگی پر بھی حتی المقدور روشنی ڈالی ہے ۔ یہ مقالہ ترقی پسند تحریک سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے زیادہ کارآمد ثابت ہوگا۔

  • Title : عصمت چغتائی کی ڈراما نگاری
    Author(s) : محی الدین زور کشمیری
    KeyWords : ترقی نسواں ، تانیثیت ، ڈرامہ ، فکشن ، ناول ، افسانہ ، ترقی پسند تحریک ، جدیدیت ، ہندو مسلم فسادات ، شوہریت ، نسائی ادب ، جنسیت ، اسٹیج
    View Full Paper
    View Abstract
    عصمت چغتائی اردو فکشن کا وہ معتبر اور ممتاز نام ہے کہ انہیں اردو فکشن نگاروں کے کڑے سے کڑے انتخاب میں شامل کیا جارہا ہے ۔ اس رجحان ساز تخلیق کار نے اردو میں ناول ، افسانہ ، فلم کے ساتھ ساتھ ڈرامہ پر بھی توجہ کی ہے۔زیرِ نظر مقالے میں مقالہ نگار نے عصمت کے ڈراموں پر سنجیدگی کے ساتھ قلم اٹھایا ہے۔ فاضل مقالہ نگار نے عصمت کے نمائندہ ڈراموں کے کچھ پہلووں کو منتخب کرکے بحث کرتے ہوئے یہ سوال قائم کیا ہے کہ عصمت کا میلان اپنے ڈراموں میں ترقی نسوں کی طرف ہے یا اسے تانیثیت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔"فسادی"، "سانپ"، "دوزخ"جیسے ڈراموں کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے مقالمہ نگار نے عصمت کے فن کا محاکمہ کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ تجزیہ کے دوران مقالہ نگار کا زاویہ نظر غیر جانب دارانہ رہا ۔ عصمت کی تخلیقات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے ایک تربیت یافت قاری کو ڈراموں کے حوالے سے مایوسی سی ہوجاتی ہے کیوں کہ ان کے ڈراموں پر سنجیدہ اور پُر مغز مباحث مفقود ہے ۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری کا یہ مقالہ اس سمت میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر شائع کررہےہیں۔

  • Title : جدید فاسی شاعری کا ارتقائی سفر: ایک تجزیاتی مطالعہ
    Author(s) : عابد گلزار
    KeyWords : دورہ باستان ، عرب حکمرانیت ، قدیم پارسی ، پہلوی ، مشروطیت ، موضوعاتِ شعر ، محکوم و مجبور ، سبق رسانی ، سبق ہندی ، دورہ باز گشت ، تکلف و تصنع ، قالب شعر ، تجدد پسندی ، اعتدال پسندی ، شعرِ نو ، شعر موجِ نو ، سبق جدید، شعر نوی میانہ رو، شعر انقلاب
    View Full Paper
    View Abstract
    تیسری صدی ہجری کے ابتدائی برسوں سے ہی فارسی زبان و ادب کے احیا کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ایران پر عرب حکمرانیت کے زوال کے ساتھ ہی فارسی شاعری کے افق پر گزشتہ تیرہ صدیوں میں ایسے درخشندہ ستارے طلوع ہوئے جس کا کلام ادب نوازوں کی عدمِ دلچسپی کا شکار کبھی نہیں ہوسکتا۔ زیرِ نظر مقالے میں مشروطیت (ایرانی آئینی اصلات کی تحریک) کے زمانے سے روایتی فارسی شاعری میں نئی ضرورتوں کے مطابق شعر میں ہئیت(قالب) اور موضوع کے حوالے سے تغیرات کی جو بحث چھڑ گئی اس کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اس کے نتیجہ میں تخلیق ہونے والی شاعری جس کو جدید شاعری کے عنوان سے پہچانا جانے لگا، میں تنوع اور تبدیلیوں کا بھی تجزیہ کیا گیا ۔یہ ارتقائی سفر جاری رہا یہاں تک کہ ایران میں اسلامی انقلاب 1979 کی کامیابی نے اس جدید شاعری میں ہہ جہت اور گہرے نقوش چھوڑے جس کا احاطہ بھی اس مقالہ میں کیا گیا ہے ۔

  • Title : علی گڑگ تھریک :موبادیات کے حوالے سے
    Author(s) : امتیاز عبدالقادر
    KeyWords : نوآبادیات ، مغرب پرستی ، تہذیبی تصادم ، نشاۃ الثانیہ ، نشاہ اولین ، سائنٹفک سوسائٹی ، تہذیب الاخلاق، غدرِ ہند ، اسلامی تمدن ، علی گڑھ کالج۔
    View Full Paper
    View Abstract
    علی گڑھ تحریک نہ سرف اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کا درجہ رکھتی ہے بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کی علمی تشنگی کو بجھانے اور فکری صلابت پیدا کرنے کی ضمن میں بھی اس نے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے ۔ یہ مقالہ بنیادی طور پر نوآبادیاتی برصغیر ہند کے مختلف فکری میلانات کے تجزیاتی مطالعے پر مبنی ہے۔مقالہ نگار امتیاز عبدالقادر نے نوآبادیاتی ہندوستان میں مسلمانوں کی سماجی و سیاسی ، معاشی و تمدنی ، تہذیبی و ثقافتی پستی اور بدحالی کو موضوع بحث بناتے ہوئے معروضی انداز میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہےکہ سرسید احمد خان اس دور کشاکش میں کس طرح ظلمت کی رداچاک کرنے کے درپے تھے۔موخرالذکر کی مغرب پرستی کو عام طور پر لوگوں نے ہدفِ ملامت بنایا یہاں تک کہ کفر کے فتویٰ تک صادر کرنے سے گریز نہیں کیا گیا۔مقالہ نگار نے اس مقالہ میں استدلالی انداز میں حوالوں کے ساتھ اس غلط فہمی کو رفا کرنے کی کوشش کی کہ سرسید احمد خان کی سستی اور اندھی تقلید نہیں کی بلکہ اپنی قوم کے افراد کو مغرب کے سائنسی علوم اور نئی فکریات سے آشنا کرنے کے درپے تھے۔۔اس اعتبار سے یہ مقالہ ہر صاحب فکر و نظر کو دعوت مطالعہ دیتا ہے ۔

  • Title : مولانا ابو اکلام آزاد کےصنفی تصورات
    Author(s) : جان نثار معین
    KeyWords : نسوانیت ، خطابت ، ابو البلاغت ، مادہ پرستی ، زمانہ جاہلیت ، صنفی مساوات ، انجمن خواتین ، ہند ، پدرانہ نظام
    View Full Paper
    View Abstract
    مولانا ابوالکلام آزاد ایک شش جہات شخصیت کا نام ہے ۔ وہ بیسویں صدی کے پہلے نصف میں برصغیر کے سیاسی افق پر پر چھائے رہے ۔ ان کی ادبی نگارشات یوں تو اوائل عمری میں ہی منصہ شہود پر آنا شروع ہوگئی تھیں لیکن گردشِ شام و سحر نے ان سے اتنے اور کام لیے جن کی تفصیل کے لیے باضابطہ طور پر دفتر درکار ہے۔سیاست سے لے کر معاشرت تک اور ادب سے لے کر مذہب تک انھوں نے تقریباً ہر موضوع پر اپنے انفرادی اور مجتہدانہ انداز و اسلوب میں خامہ فرسائی کی ہے ۔ زیرِ نطر مقالہ میں مقالہ نگار جان نثار معین نے مولانا آزاد کے صنفی تصورات کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔انھوں نے شرو بسط کے ساتھ آزاد کے مختلف متون کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ پیش کر کے اپنی رائے قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ خود آزادکے اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ کیسا برتاو رہا ہے اور ان کی نظر میں آزاد کا مقام و مرتبہ کیا تھا ، مقالہ نگار نے مستند حوالہ جات کے ساتھ ان تمام پہلووں پر باریک بینی سے روشنی ڈالی ہے ۔ اس مقالے میں مگرب میں نام نہاد نسوانی ادب پر بھی بھر پور بحث کی گئی ہے ۔ نیز اسلام کے نظریہ نسواں پر جامع اور پر مغز گفتگو کی گئی ہے اور ابوالکلام آزاد کے صنفی تصورات کو اسلامی عقائد اور اصولوں کے تحت پیش کیے گئے ہیں ۔مولانا آزاد کے خاندان کی عورتوں مثلا! فاطمہ بیگم تخلص آرزو ، حنیفہ بیگم تخلص آبرو، محمودہ بیگم (بہنیں )، زلیخا بیگم (بیوی) کے ساتھ ساتھ مقالہ نگار نے ہندوستانی سیاست کی ان مشہور و معروف خواتین کے ساتھ ساتھ اردو ادب کی عہد ساز ادیباوں کی خدمات کا بھی جائزہ لیا ہے جو یا تو آزاد کی ہم عصر تھیں یا ان کے پس رو ۔ آزادیات اور تانیثیت سے دلچسپی رکھنے والے محققین کے لیے یہ مقالہ کئی اعتبار سے ثمر آور ہے۔ جان نثار معین نے جدید تحقیقی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے معتبر اور مستند کتب اور رسائل و جرائد کے حوالوں سے اپنی بات رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔

  • Title : علامہ شبلی کی فارسی غزل گوئی
    Author(s) : عبداللہ امتیاز احمد
    KeyWords : مبالغہ آرائی، رومانیت ، تغزل ، جذباتیت ، پیکر تراشی ، حسن و عشق ، سادگی ، فارسیت ، غنائیت ، لطافت بیان ، شیرینی زبان ۔
    View Full Paper
    View Abstract
    علامہ شبلی نعمانی ہمارے اردو ادب کے ان معماروں میں شمار کیے جاتے ہیں جنھوں نے اپنی خداداد صلاحیت اور نہایت ہی عمیق مطالعہ ی بنیاد پر ادب میں کئی اہم اضافے کیے ۔ اردو تنقید کے تقابلی دبستان کے بنیاد گزار ہونے کا سہرا انہی کے سر ہے ۔تاریخ ، سوانح ، سیرت ، شاعری غرض ہر میدان میں انھوں نے اپنے تحقیقی ، تنقیدی اور تخلیقی جوہر کے کمالات دکھائے ۔ زیرِ نظر مقالہ "علامہ شبلی کی فارسی غزل گوئی" میں شبلی کی فارسی غزل گوئی کے اہم امتیازات کو زیر بحث لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ شبلی بنیادی طور پر اردو کے عہد ساز اور رجحان ساز ادیب ہیں لیکن فارسی زبان و ادب سے ان کے غیر معمولی لگاو اور ان پر کامل قدرت ہونے کی بھی کئی اہم دلائل موجود ہیں ۔ مقالہ نگار نے شبلی کی فارسی غزل کو موضوع بحث بناتے ہوئے مولانا ابولاکلام آزاد، عبد السلام ندوی ، مولانا عبد الرزاق کانپوری ، شیخ محمد اکرام ، الطاف حسین حالی کے حوالے سے بحث کو جان دار بنایا ہے ۔ امید ہے کہ قارئین ترسیل اس مقالہ سے مستفید ہوجائے گے ۔

  • Title : ترقی پسند ادب کی شعری جمالیات
    Author(s) : محمد امتیا ز احمد
    KeyWords : خون ، انقلاب ، مارکسیت ، اشتراکیت ، سماجی حقیقت نگاری ، تشدد ، ترقی پسندی ، احتجاج ، مزاحمت ، شعری جمالیات ، بغاوت ، بورژوا ، پرولتاریت
    View Full Paper
    View Abstract
    اردو کی ادبی تاریخ میں ترقی پسند ادبی تحریک کئی اعتبار سے اہم ہے ۔اس تحریک نے جہاں ایک طرف اردو ادب کو نئے موضوعات فراہم کیے وہیں اسلوب بیان کی سطح پر بھی ادبی اصناف تغیر و تبدل سے آشنا ہوئیں ۔ نیز ہئیت و تکنیک کے حوالے سے بھی لیل و نہار کا مشاہدہ کرایا ۔ناول کے ساتھ ساتھ افسانہ نے ترقی و توقیر کی کئی منزلیں طے کیں جب کہ غزل کے مقابلے میں نظم کو رواج عطا کیا گیا ۔ زیرِ نظر مقالہ میں ترقی پسند ادبی تحریک کی شعری جمالیات کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ۔ مقالہ نگار نے حتی المقدور اپنے تحقیقی اور تنقیدی صلاحیت کو بروئے کار لاکر اس تحریک سے وابستہ نمائندہ شعرائے کرام کے شعری اختصاصات کا جائزہ پیش کیا ہے ۔انھوں نے فیض احمد فیض ، اسرارالحق مجاز، ساحر لدھیانوی ، مخدوم محی الدین ۔ معین احسن جذبی ، سردار جعفری کے شعری اقتباسات پیش کرکے مقالے کا حق ادا کر دیا ہے ۔ دراصل ترقی پسند ادبی تحریک کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کے افکار و خیالات سے نہایت حد تک متاثر تھی بلکہ اردو کے ترقی پسند ادبا کو طنزاً مارکس کے ڈھنڈورچی کہا جاتا تھا ، مقالہ نگار نے مذکورہ ترقی پسند شعرا پر مارکسیت اور اشتراکیت کے اثرات کا بھر پور جائزہ لے کر ان لفظیات اور اصطلاحات پر بھی صحت مند گفتگو کی ہے جو ترقی پسند شاعری سے ہی مخصوص ہیں ۔ یہ مقالہ ترقی پسند شاعری کے انقلابی ، احتجاجی ، مزاحمتی اور اضطراری پہلووں پر بھی عمدہ طریقے سے روشنی ڈالتا ہے ۔

  • Title : پیر رومی مُرید ہندی
    Author(s) : عرفان عالم
    KeyWords : مثنوی مولائی روم ، تخلیقی مکالمہ ، ڈیوائن کامیڈی ، عشق حقیقی ، رہبانیت ، روحانیت ، جمالیاتی نظام ، جاوید نامہ ، پیر رومی ، فلسفہ ، ہئیت ، تکنیک ، وجدانی کیفیات
    View Full Paper
    View Abstract
    مولانا جلال الدین رومی فارسی کے سر برآوردہ شاعر گزرے ہیں ۔ ان کے کلام کی تہوں اور طرفوں کو منکشف کرنے کا سلسلہ گزشتہ آٹھ سالوں سے جاری ہے ۔ یوں تو ترکی کے مشہور شہر قونیا میں اپنے مرشد شمس تبریزی کے پہلو میں مولانا روم آسودہ خاک ہیں لیکن اپنے شاعرانہ محاسن و مقدمات کی بنیاد پر ساری ادبی دنیا پر ان کی حکمرانی ہے ۔ ان کے اعلیٰ ادبی کارنامہ "مثنوی مولانائی رام" کو موضوعات کی پاکیزگی اور فکری رفعت کی بنیاد پر پہلوی زبان میں قران تصور کیا جاتا ہے ۔ ان کی فکری بصیرت اور صوفیانہ ثروت مندی نے ہر دور کے حساس لوگوں کو متاثر کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال ان کے سحر سے راہ فرار حاصل نہ کر سکے بلکہ موخر الذکر ساری عمر انہیں اپنا معنوی مرشد متصور کرتے رہے ۔ کلام اقبال میں جستہ جستہ مولانا روم کی بزرگی اور دانائی کا اعتراف نظر آتا ہے ۔ زیرِ نظر مقالہ میں مقالہ نگار نے اقبال کی نظم "پیر رومی اور مرید ہندی" کے کچھ پہلووں کی نقاب کشائی کی ہے ۔ انھوں نے اپنے طور پر رومی اور اقبال کے مابین تعلقات کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ مستند اور معتبر حوالوں کی مدد سے مقالہ نگار نے اپنے تحقیقی اور تنقیدی معروضات کو پیش کرتے ہوئے اقبال اور رومی کے متعلقہ اشعار بھی پیش کیے ہیں ۔ اقبال کی شہ کار تخلیق "جاوید نامہ" کے تعلق سے بھی مقالہ نگار نے بحث اٹھائی ہے ۔ جاوید نامہ "مشرق کی "ڈیوائن کامیڈی" قرار دیتے ہوئے مقالہ نگار نے جید علماء کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی بات آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے ۔ اقبالیات سے تعلق رکھنے والے اسکالروں اور اقبال کے شیدائیوں کے لیے یہ مقالہ نعمت غیر مترقبہ ہے ۔

  • Title : حکایات زاغ و بلبل کا بیانیاتی مطالعہ
    Author(s) : الطاف انجم
    KeyWords : بیانیہ ، بیان ، بیان کنندہ ، بیانیات ، واقعہ ، ساختیات ، مابع جدید تنقید ، مصنف ، راوی ، قاری ، کہانی ، یک زمانی ، دو زمانی ، نشانیات ، نفس مطلب
    View Full Paper
    View Abstract
    بیسوی صدی کے ربع آخر میں اردو ادب کے اُفق پر جو تنقیدی نظریات نمودار ہوئے انھوں نے ادب کی تفہیم و تحسین کا ایک نیا پیراڈائم تشکیل دینے کی کوشش کی ۔ اس ضمن میں فکشن شناسی کے کچھ رویے سامنے آئے جو اپنی نہاد میں باضابطہ تنقیدی نظریات نہیں تھے لیکن فکشن کے تجزیاتی مطالعات میں ان کو کام میں لایا جانے لگا ۔ ان میں خاص طور سے نئی تاریخیت اور بیانیات قابل ذکر ہیں۔زیرِ نظر مقالہ بیانیات کے نظریاتی اور اطلاقی پہلووں سے متعلق ہے ۔ اس میں جہاں مقالہ نگار نے مختلف ناقدین اور اساتذہ کے حوالے سے بیانیات کی اجمالی تعریف پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہیں اپنی تنقیدی سوجھ بوجھ کو کام میں لاکر بیانیات کا اطلاقی نمونہ پیش کرنے کی سعی کی ہے ۔ مقالہ نگار نے اس تجزیاتی مطالعہ کے لیے اردو کے صاحبِ اسلوب نثر نگار ابوالکلام آزاد کے مجموعہ خطوط میں شامل ایک خط بعنوان "حکایاتِ زاغ و بلبل" کو منتخب کیا ہے ۔ اس خط کے تجزیہ کے دوران انھوں نے بیانیات کے بنیادی پہلو"واقعہ"پر توجہ مبذول کرتے ہوئے اس کے اہم عناصر مثلا! 1۔ فعل کی موجودگی ، 2۔ عمل کی تبدیلی ، 3۔ تبدیلی میں زمانے کی شرکت :اور 4۔ کردار کا متحرک تصور کے تحت متن کا جائزہ لیا ہے ۔ اردو میں بیانیات کے حوالے سے متون کے تجزیے کی کوئی روایت نہیں ہے ،حالاں کہ دوسرے مابعد جدید تنقیدی نظریات کے اطلاقی نمونے بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں لیکن مقالہ نگار نے مابعد جدید تنقیدی نظریات کے کے نظری اور عملی میلانات سے دلچسپی کی بنیاد پر یہ تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔اس اعتبار سے یہ مقالہ اپنی سطح پر انفرادیت کا متحمل ہے ۔ امید کی جاتی ہے کہ قارئین ترسیل دلچسپ و رنگا رنگ مضامین کی بزم میں اس قدرے خشک مضمون کو سراہیں گے ۔