View Abstractمولانا ابوالکلام آزاد ایک شش جہات شخصیت کا نام ہے ۔ وہ بیسویں صدی کے پہلے نصف میں برصغیر کے سیاسی افق پر پر چھائے رہے ۔ ان کی ادبی نگارشات یوں تو اوائل عمری میں ہی منصہ شہود پر آنا شروع ہوگئی تھیں لیکن گردشِ شام و سحر نے ان سے اتنے اور کام لیے جن کی تفصیل کے لیے باضابطہ طور پر دفتر درکار ہے۔سیاست سے لے کر معاشرت تک اور ادب سے لے کر مذہب تک انھوں نے تقریباً ہر موضوع پر اپنے انفرادی اور مجتہدانہ انداز و اسلوب میں خامہ فرسائی کی ہے ۔ زیرِ نطر مقالہ میں مقالہ نگار جان نثار معین نے مولانا آزاد کے صنفی تصورات کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔انھوں نے شرو بسط کے ساتھ آزاد کے مختلف متون کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ پیش کر کے اپنی رائے قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ خود آزادکے اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ کیسا برتاو رہا ہے اور ان کی نظر میں آزاد کا مقام و مرتبہ کیا تھا ، مقالہ نگار نے مستند حوالہ جات کے ساتھ ان تمام پہلووں پر باریک بینی سے روشنی ڈالی ہے ۔ اس مقالے میں مگرب میں نام نہاد نسوانی ادب پر بھی بھر پور بحث کی گئی ہے ۔ نیز اسلام کے نظریہ نسواں پر جامع اور پر مغز گفتگو کی گئی ہے اور ابوالکلام آزاد کے صنفی تصورات کو اسلامی عقائد اور اصولوں کے تحت پیش کیے گئے ہیں ۔مولانا آزاد کے خاندان کی عورتوں مثلا! فاطمہ بیگم تخلص آرزو ، حنیفہ بیگم تخلص آبرو، محمودہ بیگم (بہنیں )، زلیخا بیگم (بیوی) کے ساتھ ساتھ مقالہ نگار نے ہندوستانی سیاست کی ان مشہور و معروف خواتین کے ساتھ ساتھ اردو ادب کی عہد ساز ادیباوں کی خدمات کا بھی جائزہ لیا ہے جو یا تو آزاد کی ہم عصر تھیں یا ان کے پس رو ۔ آزادیات اور تانیثیت سے دلچسپی رکھنے والے محققین کے لیے یہ مقالہ کئی اعتبار سے ثمر آور ہے۔ جان نثار معین نے جدید تحقیقی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے معتبر اور مستند کتب اور رسائل و جرائد کے حوالوں سے اپنی بات رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔