Paper

  • Title : اداریہ
    Author(s) : ڈاکٹرعرفان عالم
    KeyWords :
    View Full Paper

  • Title : فاصلاتی نظام تعلیم میں اردو کے فروغ میں اطلاعاتی ٹکنالوجی کا کردار
    Author(s) : ڈاکٹر اشرف لون
    KeyWords : فاصلاتی نظام تعلیم،اردو، انفارمیشن ٹکنالوجی،انٹرنیٹ، ریڈیو، ٹیلی ویژن، بی بی سی اردو، اردو اکادمی، قومی کونسل، ای ٹی وی اردو، ڈی ڈی اردو، کمیونٹی ریڈیو، گیان وانی
    View Full Paper
    View Abstract
    فاصلاتی نظام تعلیم روایتی یا مروجہ تعلیمی نظام سے مختلف ایک نظام ہے۔اس میں بنا کسی کلاس روم کے ایک طلب علم تک تعلیم پہنچائی جاتی ہے۔دراصل اس کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ سماج کے ہر فرد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے۔دوسرے یہ کہ سماج کے ایسے طبقات کو بھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جائے جو کئی ایک وجوہات کی بنا باقاعدہ طور پر پر کالج یا یونیورسٹی نہیں جاسکتے۔ساتھ ہی ان لوگوں کے لیے بھی یہ فائدہ مند ہے جن کی اقتصادی حالت بہت کمزور ہوتی ہے کہ وہ اس نظام کے ذریعے کم خرچہ میں تعلیمی اخراجات پورا کرسکتے ہیں۔موجودہ دور میں برقی میڈیا بالخصوص انٹرنیٹ نے اس نظام ِتعلیم کی کایا ہی پلٹ دی ہے اور اس میں بہت وسعت پیدا کی ہے۔ساتھ ہی ٹیلی ویژن اور ریڈیو نے بھی اس میں نئے امکانات پیدا کیے ہیں اور اس نظام تعلیم کو زیادہ فعال، متحرک اور پر اثر بنادیا ہ اردو زباں و ادب کے فروغ میں انفارمیشن ٹکنالوجی ایک اہم روال ادا کر رہا ہے۔انٹرنیٹ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے فاصلاتی تعلیمی نظام کو آسان بنا دیا ہے۔انٹرنیٹ پر اردو کی متعدد ویب سائٹس دستیاب ہیں۔کچھ ویب سائٹس پر مفت میں کتابیں دستیاب ہیں جنہیں ڈاون لوڑ بھی کیا جاسکتا ہے اور کچھ پرصرف کتابوں کو پڑھا جاسکتاہیں۔وہیں اردو کی ایسی بھی ویب سائٹس بھی وجود میں آرہی ہیں جہاں نئی کتابیں خریدی جاسکتی ہیں۔وہیں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر مختلف ادبی پروگرام بھی اردو کے فروغ میں اہم رول ادا کر رہے ہیں اور یہ پروگرام خواص کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی اردو زبان و ادب کے تئیں دلچسپی پیدا کر رہے مصنف نے اس مقالے میں انٹرنیٹ وسائل اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے اردو کے فروغ میں کی جارہی پیش رفت کا جائزہ لیا ہے اور بالخصوص ایسی ویب سائٹس اور پروگراموں کی نشاندہی کی ہے جن کے ذریعے نہ صرف اردو زبان و ادب کو بلکہ اردو زبان میں موجود دوسرے علوم کو بھی فروغ حاصل ہو رہا اور اس طرح یہ وسائل فاصلاتی نظام تعلیم میں اردو کے فروغ میں یہاں نمایاں رول ادا کر رہا ہے۔ مقالہ میں انفارمیشن ٹکنالوجی بالخصوص انٹرنیٹ پر موجود اردو زبان و ادب سے متعلق مواد اور اس زبان میں موجود دوسرے علوم سے متعلق جو مواد ہے، اس کا بھرپور جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے جو اردو فاصلاتی نظام تعلیم میں بڑا کار آمد ثابت ہو رہا ہے۔ ہیں۔

  • Title : عصری تناظر میں فاصلاتی تعلیم کی اہمیت
    Author(s) : محمد الطاف بٹ
    KeyWords : کدورت،متلاشی،حق نوازی،روایتی تعلیم،طوالت،طریقہ تدریس ،پسماندہ طبقہ،مہنگائی،خواندگی،معلم،تکنیکی وسائل،اجتماعی محرومی،اہلیت،شرح خواندگی،تشنگانَ علم و ادب،ادب پروری
    View Full Paper
    View Abstract
    علم ایک ایسا روشن چراغ ہے جس کی لو سے بنی نوع انسان کے تاریک وجود کو آگہی کی وہ جوت ملتی ہے جس سے اس کی پیش قدمی اندھیرے سےگویا روشنی کےاُن میناروں کی طرف ہوتی ہےجہاں وہ صداقت کا متلاشی اور تغیر کا مشتا ق بن جاتا ہے۔یہ ایک مشہور قول ہے کہ"تعلیم انسان کا سب سے بہترین زیور ہے" ۔ہمارے سماج میں تعلیم حاصل کرنے کے بہت سارے ذریعےموجود ہیں۔ان تمام ذرائع میں عصرِ حاضر کا سب سے فعال اور متحرک ذریعہ نظامتِ فاصلاتی تعلیم ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہےکہ ہر سال یہاں سے لاکھوں کی تعداد میں طلبہ و طالبات اپنی اپنی ڈگریاںمکمل کرتے ہیں۔تعلیم کے نور سے سماج کے ہر فرد کو منور کرنا اس عظیم اور فعال ادارے کا بنیادی فریضہ رہا ہے ۔نظامت فاصلاتی تعلیم کا دائرہ دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جارہا ہےاس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس مہنگائی اور پر آشوب دور میں یہ اُن تمام تشنگانِ علم کے لئے تعلیم کےدر کھلے رکھتا ہےجو کسی وجہ سے اپنی تعلیم کو آگے نہیں بڑھاپاتے ہیں۔چاہے وہ معاشی مشکلات سے دو چار ہوں یا بے روز گاری کی چکی میں پس چکے ہوں،جسمانی طور پر معزور افراد ہوں یا شفقتِ پدر سے محروم غرض تعلیم کو اس قدر آسان بنا دیا گیا ہےکہ عصرِ حاضرمیں اس کی بدولت گھروں تک تعلیم کی رسائی ممکن ہوسکی۔نظامت فاصلاتی تعلیم سماج کے ان افراد کیلئے اور ذیادہ سود مند ثابت ہورہاہے۔ جو سرکاری نوکری تو کر رہے ہیں مگراپنی تعلیمی ذہانت کوآگے بڑھا کر کو سماج کی خدمت میں لگاناچاہتے ہیں۔ان کےلئے بھی فاصلاتی تعلیم معلمی کے عظیم فرائض انجام دے رہا ہے۔عصرِ حاضر میں جب ہم اپنے سماج پر نظر ڈالتے ہیں تو مختلف النوع مسائل و مشکلات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ان تمام حالات کو دیکھ کر اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ تعلیم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے ہم ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔اس ضمن میں نظامت فاصلاتی تعلیم کا ادارہ ایک درخشندہ ستارے کےمانند چمکتا دکھائی دیتا ہے۔جو علم کے بٹکے ہوئے مسافروں کی رہنمائی کرتا ہے۔محمد الطاف بٹ نے اس مقالے میں نظامت فاصلاتی تعلیم کی عصری معنویت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے وہی انھوں نے اس توضیح بھی بڑی بلیغ انداز میں کی ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ تعلیم کے فروغ میں اس کیا رول ہے۔مصنف نے نظامت فاصلاتی تعلیم کےدرس و تدریس کو کافی سراہاہے۔ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس ادارے نے ہمارے تعلیمی نظام کو بہتر بنایا ہے گویا عصری تناظر میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

  • Title : نظامت فاصلاتی تعلیم، کشمیر یونیورسٹی کی اُردو خدمات
    Author(s) : ڈاکٹر الطاف انجم
    KeyWords : خود اکتسابی مواد، بزم، ذرائع ابلاغ، بیانیات، جمود، اطراف و اکناف، تحقیق و تنقید، معتبر، تعلیم ا تدریس، ادب فہمی
    View Full Paper
    View Abstract
    دورِ حاضر اپنی قیامت زدہ چالوں سے ہر ایک فردِ بشر کے لیے کوہِ گراں ثابت ہو رہا ہے۔ حیات سے لے کر کائنات تک اور معاشرت سے لے کر سیاست تک زندگی کے جملہ شعبہ جات میں قدروں کی شکست و ریخت سے آج کا ذِی حِس انسان اندرونی سطح پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس صورتِ حال میں نظامِ تعلیم کے مستثنٰے ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے اِس دور میں ہمارا تدریسی نظام مثبت قدروں کی تعمیر و تشکیل کے منصبِ اعلیٰ سے اُتر کر بازار کی کوئی شے بن کر رہ گیا ہے۔ بہر حال صورتِ حال جو بھی ہے کسی فردِ بشر کی جسارت نہیں کہ وہ اس سے راہِ فرار اختیار کرسکے۔ اعلیٰ سطح پر ہمارا رسمی تعلیمی نظام آبادی کی ایک قابلِ لحاظ تعداد کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جس کے لیے معاشی، سماجی، جغرافیائی اور جسمانی عوامل برراہِ راست ذمہ دار ہیں، جس کے نتیجے میں گزشتہ تین دہائیوں میں فاصلاتی نظامِ تعلیم متوازی طرزِ تعلیم کے بطور اہمیت اور افادیت حاصل کررہا ہے۔اس طرح مقامی سطح پر جامعہ کشمیر کا نظامتِ فاصلاتی تعلیم کئی اعتبار سے قابلِ ستائش کام انجام دے رہا ہے۔

  • Title : ہندوستان کی تعلیمی ترقی میں فاصلاتی نظام ِتعلیم کا کردار:ایک مطالعہ
    Author(s) : ڈاکٹر حبیب احمد خان
    KeyWords : باوقار پیشہ ، صنعتی انقلاب، رسمی تعلیم، جدید ٹیکنا لوجی ، ترکِ تعلیم، شرحِ خواندگی، مستفید، ذہنی تناو، مفلوک الحال
    View Full Paper
    View Abstract
    سماج میں جو بھی تبدیلی رونما ہوتی ہےاس کا بلواسطہ یا بلا واسطہ اثر ہمارے تعلیمی نظام پر ہوتا ہے۔آج کی طرزِ زندگی میں سماج اور تعلیم ایک ہے سکے کے دو پہلو گردانیں جاتے ہیں ۔ہمارا سماج متعدد سماجی ومعاشی تبدیلیوں سے دو چار ہیں۔ہمارے سامنے نطامت فاصلاتی تعلیم آج ان ہی تبدیلیوں کا مظہر ہے۔ہندوستان میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں انگریزوں سے قبل کوئی نظامِ تعلیم نہیں تھا جو سراسر غلط ہے ۔ہمارے ملک میں زمانہ قدیم سے ہی تعلیم کا ایک جال پھیلا ہوا تھا۔ہندوستان کے میں فاصلاتی تعلیم نے تدریس کے میدان میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے اور اس انقلاب کے ثمرات خواندگی سے اعلیٰ تحقیق ہر جگہ نمایاں ہیں۔اس ملک میں اگر فاصلاتی نظام تعلیم کو کم لوگ پسند کرتے ہیں مگر یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اس نظام کے طفیل لاکھوں لوگ مستفید ہوکرایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں وہ خود پر فخر محسوس کرتے ہیں۔اس کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نظام میں ترکِ تعلیم کی شرح بہت ہی کم ہے۔علاوہ ازیں طالب علم اپنی سہولیت کے مطابق گھر اور کام کی جگہ پر تعلیم کا آغاز کرتے ہیں۔کم آمدنی اور غربت کے سبب جو لوگ باقاعدہ طور پر اسکول اور کالج نہیں جا سکتےوہ فاصلاتی تعلیم کے ذریعے کم اخراجات میں اپنے خوابوں کوشرمندئے تعبیرکرسکتے ہیں۔ہندوستان کا تعلیمی نظام کافی حد تک بہتر ہوچکا ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلہ میں کسی درجہ کم نہیں ۔اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ یہاں خواندگی کی شرح میں غیر یقینی اضافہ ہواہے۔مصنف نے یہ مقالہ ہندوستا ن میں فاصلاتی تعلیم کی غیر معمولی مقبولیت کو دیکھ کر قلمبند کیا ہے ۔ ان کے مقالے کو پڑھنےکے بعد یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ کس طرح فاصلاتی نظام تعلیم نے ہندوستان میں تعلیم و تدریس کی توسیع کےلئے گراں قدر خدمات انجام دی۔

  • Title : ہندوستان میں فاصلاتی نظامِ تعلیم کی موجودہ صورت ِ حال
    Author(s) : ڈاکٹرمحمد احسن
    KeyWords : ناآبادیاتی تعلیمی نظام،ایٹمی سائنس ، قمری سائنس ، صنعتی منظر نامہ ، برانڈ ایکوٹی
    View Full Paper
    View Abstract
    فاصلاتی نظامِ تعلیم کا سب سے بڑا اور یاد گار کارنامہ یہ ہے کہ اس کی بدولت تعلیم کے لازوال زیور سے ہر ایک فردِ بشر یکساں طور پر آراستہ ہوا۔بین الاقوامی سطح پر بالعموم جب کہ قومی سطح پر بالخصوص کئی دہائیاں قبل تعلیم کا تصور ، اس کے فیوض و برکات اور اس کی اہمیت و معنویت وغیرہ سے محض ایک محڈود و مخصوص حلقہ ہی بہرور تھا ۔عام لوگ اس کو محض وقت و معاش کا ضیاع ہی تصور کرتے تھے ۔اس کے کئی سارے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ لوگ مالی اعتبار سے پست اور کمزور زندگی گزارتے تھے ۔ معاشی ذرائع اور وسائل کم قلیل تھے ۔ ایسے حالات میں عام لوگوں کو تعلیم و تربیت کی معنویت اور ضرورت سے آشنا کرنے اور انہیں اس ترقی کے وسیلے سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں سرکاری و غیر سرکاری سطحوں پر کئی طرح کے منصوبے تیار کیے گئے جن میں فاصلاتی نظامِ تعلیم ایک بہترین اور مفید و کارآمد منصوبہ ثابت ہوا۔ فاصلاتی نظامِ تعلیم کے شعبے نے بہت کم عرصے میں اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ لاتعداد شائقینِ علم اس سے وابستہ ہوگئے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے۔ہندوستان میں اگرچہ پہلے پہل اس شعبہ تعلیم کے حدود بہت حد تک محدود و مخصوص رہے ہیں لیکن آج یہ شعبہ جس تیز رفتاری سے اپنی شاخیں پھلانگنے میں کامیاب ہوا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ڈاکٹر محمد احسن نے اس تحقیقی مقالے میں فاصلاتی نظام ِ تعلیم کے تاریخی پس منظر ، اس کے ارتقائی مراحل اور اس کے موجودہ امکانات کے حوالے سے بالتفصیل روشنی ڈالی ہے ۔یہ مقالہ ان معنوں میں اہمیت کا حامل ہے کہ اس کی روشنی میں فاصلاتی نظامِ تعلیم کی افادیت کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں اس کی ضروریات ، موجودہ دور میں اس کو درپیش مشکلات اور ان کے حل کے سلسلے میں ایک عالمانہ گفتگو شامل ہے ۔

  • Title : اردو کے فروغ میں نظامت فاصلاتی تعلیم کشمیر یونیورسٹی کا کردار
    Author(s) : ڈاکٹر محی الدین زور کاشمیری
    KeyWords : اطلاقی مراکز ، اسٹیڈی سنٹر،خود اکتسابی مواد، ہارڈ کور فکشن،افہام و تفہیم
    View Full Paper
    View Abstract
    جامعہ کشمیر سرینگر کا شمار ہندوستان کی اعلیٰ اور سرفہرست جامعات میں سے ہوتا ہے ۔اس جامعہ کا اپنا ایک تاریخی پس منظر و پیش منظر ہے جو اس کی عظمت و انفرادیت پر دال ہے ۔ملک کی کئی ساری یونیورسٹیوں کے مقابلے میں اس یونیورسٹی کی عمر اگرچہ بہت کم ہے لیکن تعلیمی و تربیتی معیار و اعتبار اور جدید تعلیمی و تربیتی وسائل و ذرائع کے برمحل استعمال میں اس یونیورسٹی نے اس قدر پہل کی ہے کہ ملک کے بیشتر اعلیٰ تعلیمی ادارے اس کے نقش قدم کی تقلید کرتے نظر آرہے ہیں ۔مذکورہ یونیورسٹی سے منسلک شعبہ "فاصلاتی نظام تعلیم" ایک دراز اور وسیع شعبہ ہے ۔اس شعبے کے تحت کئی ایک مضامین میں ایم –اے کی اسناد سے طالب علموں کو مستفید کیا جارہا ہے ۔ علاوہ ازیں کئی طرح کے ڈپلوما اور سرٹفکیٹ کورسز کا اہتمام بھی موجود ہے۔ریاست جموں و کشمیر سے وابستہ طالب علموں کی ایک کثیر تعداد اس شعبے سے فراہم شدہ سہولیات سے مستفید ہوکر اپنا تعلیمی سفر جاری رکھ سکتے ہیں ۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طالب علم مختلف مضامین میں اعلیٰ تعلیمی اسناد حاصل کرکے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات انجام دینے میں کامیاب رہتے ہیں ۔درس و تدریس کے علاوہ مختلف النوع موضوعات کے حوالے سے سیمناروں کا انعقاد ، توسیعی خطبات ، ورک شاپ، مشاعرے اور بحث و مباحثہ وغیرہ جیسی علمی و تعلیمی سرگرمیاں جدید ٹکنالوجی کے ذریعے طالب علموں کو بہم پہنچانا اس شعبے کا خاصا ہے ۔ اس تحقیقی مقالے میں ڈاکٹر زور نے نظامت فاصلاتی تعلیم کشمیر یونیورسٹی کی انہی خدمات کے حوالے سے بالعموم اور اردو زبان و ادب کی تشہیر و ترقی کے تئیں اس ادارے کی خدمات کے حوالے سے بالخصوص روشنی ڈالی ہے ۔امید ہے کہ قارئین حضرات اس مقالے سے اہم معلومات اخذ کرکے اسے پسند فرمائیں گے۔

  • Title : خطہ پیر پنچال میں اردو ادب (فاصلاتی تعلیم کے تحت)
    Author(s) : ڈاکٹر آصف ملک علیمی
    KeyWords : بیدار مغز، فعالی اقدامات، مطالعاتی ذوق و شوق ، عدیم الفرصت، تنگ نظری ، تحقیق و تنقید
    View Full Paper
    View Abstract
    خطہ پیر پنچال جہاں قدرتی حسن و شباب کا ایک انمول و لازوال نمونہ ہے وہیں جدید سہولیات اور آسائشوں کے فقدان کی وجہ سے یہاں کے باشندے ایک مشکل اور قدیم طرز کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ بڑے بڑے سنگ لاخ پہاڑوں سے گھیرے ہوئے اس سرحدی علاقے کی بیشتر آبادی آج کے اس ترقی یافتہ زمانے میں بھی محض مویشی چرانے اور کھیتی باڑی پر ہی اکتفا کرتی ہے ۔شہری تمدن سے کوسوں دور اس خطہ ارض کی نونہال نسل کو تعلیمی ماحول فراہم کرنے میں جہاں دوسرے کارآمد اور آسان وسائل استعمال میں لائے جاتے ہیں وہیں فاصلاتی نظامِ تعلیم کا بھی اس سلسلے میں ایک ناقابلِ فراموش رول رہا ہے ۔گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں کے باشندے اسی نظام کی وساطت سے وقتی تقاضوں کے تحت اپنی ضروریات پوری کرنے میں سرگرمِ عمل ہیں ۔جہاں دیگرمضامین سے دلچسپی رکھنے والے طالبِ علم فاصلاتی نظامِ تعلیم کے تحت اپنا تعلیمی سلسلہ جاری و ساری رکھنے میں پیش پیش رہتے ہیں وہیں اردو زبان و ادب سے تعلق رکھنے والا حلقہ بھی بہ آسانی اس نظامِ تعلیم سے کسبِ فیض حاصل کرتا ہے ۔اس کی بہترین و مستند مثال اُن ادب نواز افراد کی صورت میں ہمارے سامنے عیاں ہے جو اردو زبان و ادب سے متعلق موزوں تعلیم حاصل کرکے ملک و بیرون ملک کے کئی شعبہ ہائے زندگی میں اپنی قابلیت و ہنرمندی کا ثبوت فراہم کرچکے ہیں یا جو موجودہ وقت میں اس سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔اس تحقیقی مقالے میں ڈاکٹر آصف ملک علیمی نے خطہ پیر پنچال کی تاریخی ، جغرافیائی ، تہذیبی و تمدنی انفرادیت کے ساتھ ساتھ یہاں کی تعلیمی سرگرمیوں کو بالخصوص فاصلاتی نظامِ تعلیم کے خصوصی حوالے سے آئینہ کرنے کی قابلِ ستائش کوشش کی ہے ۔اردو زبان و ادب سے یہاں کے دلچسپی رکھنے والے حلقے کے تئیں فاصلاتی نظامِ تعلیم نے کس نوع کی خدمات انجام دی ہے یا دے رہا ہے ، اس سے متعلق تمام تر تفصیلات پیش کرنے سے یہ مقالہ اہلِ ذوق کے لیے بلاشبہ ایک اہم دستاویز ثابت ہوگا۔

  • Title : .فاصلاتی نظامِ تعلیم: روشن مستقبل کا متبادل نظام
    Author(s) : ڈاکٹر جاں نثار معین
    KeyWords : کرسپانڈنس ایجوکیشن، کانٹی نیوٹنگ ایجوکیشن،پیشہ ورانہ تعلیم ، کلاووڈ کمپوٹنگ تکنیک، ای ٹیچنگ،ایکٹو لرننگ،انسٹرکشنل میڈیا، کئریر لانگ ٹرننگ
    View Full Paper
    View Abstract
    تعلیم ایک انسان کا بنیادی اور لازمی فریضہ ہے ۔ شاید ہی کوئی شخص ایسا ہوگا جو تعلیم کے زیور سے منور نہ ہونا چاہتا ہولیکن زندگی کے بعض مسائل و معاملات وقتاً فوقتاً اس عمل میں رکاوٹ بن کر انسان کو علم کی اس روشنی سے محروم رکھ دیتے ہیں ۔گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کچھ ایسے اقدامات اٹھائے گئے کہ ایسے افراد بھی بہ آسانی علم و ہنر کے ہر گُر سے مستفید ہو سکیں ۔ ان ہی سہولیات میں ایک جدید اور کار آمد شعبہ فاصلاتی نظامِ تعلیم کا بھی ہے ۔اس نظام کی بنیادی غرض و غایت گھر گھر تعلیم کا رواج عام کرنا ، نئے نئے وسائل کے استعمال سے تعلیمی عمل کو دلچسپ اور مفید بنانا، دیگر مصروفیاتِ زندگی کے ہم راہ لوگوں کو تعلیمی سرگرمیوں سے جوڑے رکھنا وغیرہ ہیں۔زیرِ نظر مقالے میں ڈاکٹر جاں نثار معین نے فاصلاتی نظامِ تعلیم ، اس کے اغراض و مقاصد ، اس کی ابتدا و ارتقا، ملکی و بین الاقوامی سطح پر اس کی صورت حال اور اس مستقبلِ قریب و بعید میں اس کے امکانات وغیرہ جیسے اہم موضوعات کو استدلالی انداز میں بحث و تمحیص کا حصہ بنایا ہے ۔ڈاکٹر موصوف نے کئی ایک مستند کتابوں اور مضامین سے استفادہ حاصل کرکے مقالے کو نہایت جان دار بنایا ہے ۔فاصلاتی نظامِ تعلیم کی تعریف و تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے شائقین حضرات اس مقالے سے بھر پور لطف اٹھاسکتے ہیں ۔