View Abstractبنگال اردو کا ایک مرکز رہا ہے۔غیر منقسم بنگال کے اہم شہر کلکتہ میں اردو زبان و ادب کا فروغ ہوا ۔اس کے ساتھ بنگلہ دیش میں اردو زبان و ادب کا چرچا چلتا رہا۔فورٹ ولیم کالج میں اردو اور بنگلہ ایک ساتھ چلی تھیں۔بنگال کے ہر گوشے میں اردو بنگلہ کا باہمی رابطہ قابل رشک تھا۔بنگلہ زبان سے اردو زبان نے بہت سارے الفاظ مستعار لے کر اپنے دامن کو وسعت بخشی۔بنگلہ نے بھی اردو کو اپنا یا اور ہزاروں اردو الفاظ بنگلہ زبان میں شامل ہیں ۔کلکتہ اور ڈھاکہ میں بنگلہ زبان و ثقافت کے ساتھ ساتھ اردو ز بان و ثقافت بھی یکساں طور پر مقبول ہے۔اردو دوست خواتین و حضرات اردو مشاعرہ میں حاضر تو ہوتے ہی تھے اور ساتھ میں بنگلہ مشاعروں میں بھی حاضر ہو کر پیش کیے جانے والے کلام پر داد دیتے تھے۔یہی عام صورت حال تھی اٹھارہوی صدی سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل تک ۔۱۹۴۷میں تقسیم ہند کے بعد اردو کو پاکستانی حکومت نے اپنی قومی زبان بنانے میں زور دار کوشش چلائی۔اردو کو بنگالی پر زبردستی مسلط کرنا چاہا۔زبردستی کو مشرقی پاکستان کے بنگالی لوگ قبول نہ کر سکے۔بعد میں اردو کے خلاف مظاہرہ ہوا۔جلسے ہوۓ۔جلوس میں بندوق سے گولی چلی۔چار آ دمی جان بحق ہوۓ۔اس وقت سے بنگال اردو تنا زعہ شرو ع ہوا۔تنازعہ کے اسباب میں قو میتوں کا تضاد اہم ہے۔اس کے علاوہ اردو کو مشرقی پاکستان کی حکومتی زبان زبردستی طور پر قرار دینا بھی تنازعہ کا اور ایک سبب بنا۔دوسری طرف بنگالیوں پر مسلم افواج میں بھرتی کے دروازے بند کرنا ۔سرکاری اعلی نوکری کی لیے اردو داں ہونا لازم قرار دینا،زریعہ تعلیم میں صرف اردو کو اہمیت دینا وغیرہ اسباب کی بنا پر بنگلہ اردو تنازعہ ہوا تھا۔۱۹۷۱ کے بعد بنگلہ دیش میں کچھ دنوں تک اردو کو حکارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔اب نظریہ میں تبدیلی آئی۔اب بنگلہ دیش میں بھی اردو کو ایک ترقی یافتہ زبان کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔اردو سے بنگلہ میں کھلے عام تراجم ہو رہے ہیں۔ بنگلہ ادب کے وسیع خزانے سے اب اردو والے بھی مواد حاصل کر رہے ہیں۔اب بنگلہ دیش میں ایک ہی مجلس میں بنگلہ شاعر اسد چودھری اور اردو شاعر احمد الیاس مشاعرہ میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی اپنی شعر و شاعری سے سامعین کو محظوظ فرماتے ہیں ۔اگر چہ سیاسی میدان میں بنگلہ اردو تنازعہ کو زندہ رکھنے کے لیے کبھی کبھی بعض سیاسی لوگوں کی ہوشیاریاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔زیر نظر مقالہ میں ان تمام حالات و واقعات کو مفصل اور مدلل بیان کیا گیا ہیں۔امید ہیں کہ قارئین اسےپسند کریں گے۔