Paper

  • Title : اداریہ
    Author(s) : الطاف انجم
    KeyWords :
    View Full Paper

  • Title : جموں و کشمیر کا اولین افسانہ نگار :محمد الدین فوق
    Author(s) : قدوس جاوید
    KeyWords : افسانہ،منی افسانہ،افسانچہ، حکایت،ادبی تار یخ حکایتِ کشمیر،فکشن،اضافی تنقید،بیانیہ۔
    View Full Paper
    View Abstract
    یہ مقالہ اُردو کے نامور استاد اور نقادپروفیسر قدوس جاوید کی تحقیقی کاوش کا نتیجہ ہے جس میں انہوں نے نہایت ہی استدلالی طریقے سے ریا ست جموں و کشمیر کے ایک اہم سپوت محمد الدین فوق کی افسانہ نگاری پر بحث کی ہے۔مقالہ نگار نے شرح و بسط اور مناسب حوالے کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ محمد الدین فوق ریاست جموں و کشمیر کے اولین افسانہ نگار ہیں جن کے افسانہ کا اولین مجموعہ ۱۹۶۸ء میں منصہ ٔشہود پر آیا ہے۔مقالہ نگار نے افسانہ نگاری کے فنی اور تکنیکی امور پر بھی سیر حا‎‎صل روشنی ڈالتے ہوئے فوق کے افسانوں کو مشرقی مزاج سے زیادہ ہم آہنک قرار دیا۔ان کا اصرار ہے کہ فوق نے اپنے افسانوں کو حکایات کا نام اس لیے دیا ہے کہ ہماری تہذیبی ،جمالیاتی اور ثقافتی زندگی میں قصہ و حکایت کی اہمیت اظہرمنالشمّس ہے۔انہوں نے دعوی کیا ہے کہ منٹو کا ’’سیاہ حاشے‘‘جو۱۹۴۷کے بعد شائع ہوا ،سے قریباًبیس سال قبل فوق کا مجموعہ ’’حکایات ِکشمیر‘‘شا ئع ہوا تھا۔مقالہ نگار نے اردو کے معروف اور مستند ناقدین کی آرا کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے دعوی کو مستحکم بنایا ہے۔یہ مقالہ اردوفکشن کی تاریخ میں با لعموم اردو رِیاست جموںوکشمیر کی ادبی تاریخ میں مناسب اہمیت کا حامل ہے اور اردو کے ادبی مورخین و محققین کے لیے بہت ہی دلچسپ ثابت ہوگا۔

  • Title : اردو زبان میں خسرو شناسی کا اجمالی جا ئزہ
    Author(s) : اسیم کاویانی
    KeyWords : خسرو شناسی،تاریخ،تہذیب،ہندوستانیاں،ادبی تاریخ،موسیقی،صوفیت،مشترکہ کلچر،سلاطینِ دہلی،دلیِ دربار،عرۃالکمال،فارسی ادبیات۔
    View Full Paper
    View Abstract
    زیرِنظرمقالہ ہند اسلامی تہذیب و ثقافت کے امین امیرِخسرو کی حیات اور مختلف علمی،ادبی تاریخی اور انتظامی پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔بنیادی طور پر اس مقالے کا موضوع ہندوستان میں خسرو شناسی کی روایت کے اہم پہلوؤں پر بحث و تمحیص ہے۔اردو کے معروف اور معتبر محقق اسیم کاویانی نے نہایت ہی علمی سنجیدگی اور تحقیقی ذوق و شوق کے ساتھ برصغیر بلخصوص ہندوستان میں امیرِخسرو پر ہوۓعلمی اور ادبی کام کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔مقالہ نگار نے مختلف عناوین کے تحت امیرِخسرو کی ہشت پہلو شخصیت کو ضبطِ تحریر میں لانے کی عمدہ اور قابلِ ذکر کوشش کرتے ہو ۓ متعد د تاریخی واقعات اور بیانیوں کو مناسب حقائق کی روشنی میں استردادعطا کیا۔انہوں نے امیرِ خسرو پرلکھی گئی درجنوں کتابوں کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد یقینا ً اپنا نام خسروشناسی میں شامل کروایا۔اس ضمن میں انہوں نے جن کتابوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا ان میں ’’شعر العجم‘‘(شبلی نعمانی)،’’حیات ِ خسرو‘‘(منشی محمد سعید احمد مار ہروی)،’’امیرِ خسرو اور ان کی شاعری‘‘(شجاعت علی سندیلوی)،’’امیر خسرو اور ہندوستان‘‘(تارا چند)،’’امیر خسرو اور ان کی ہندی شاعری‘‘(ڈاکٹر صفدرآہ)،’’ہندوستان امیرخسرو کی نظر میں‘‘(سید صباح الدین)،’’خسرو شناسی’’(ظ۔انصاری)،’’امیر خسرو احوال و آثار‘‘(نورالحسن انصاری)،’’امیر خسرو:عہد،فن اورشخصیت‘‘(عرش ملسیانی)،’’خسرواور عہدِخسرو‘‘(عبدالطیف عروج)وغیرہ کے ساتھ ساتھ محمد مجیب کی Hazrat Amir Khusro of Delhi اور ڈاکٹر محمد وحید مرزا کی Life and Works of Amir Khusroکی انگریزی تصانیف بھی قابل ذکر ہیں۔اس طرح یہ مقالہ امیر خسرو کی حیات و شخصیت پر لکھے گئےمقالوں اور کتابوں پر ایک اضافہ تصور کیا جاتا ہے ۔ادارہ اسیم کاونی کا یہ نادر مقالہ ترسیل کے اس شمارے میں شامل کرتے ہی نہایت ہی مسرت محسوس کر رہا ہے۔

  • Title : تحریک آزادی ٔ ہند،مسلمان اور اردو زبان
    Author(s) : پروفیسر حدیث انصاری
    KeyWords : تاریخ نویسی،نوآبادیات، قومی مفاد، علاقائیت مشترکہ کلچر ،استعماریت، وطنیت، انسانیت،اردو معاشرہ،غدر ہند،اصلاح پسندی۔
    View Full Paper
    View Abstract
    زیرِ نظر مقالہ عصر ِحاضر کے ایک اہم موضوع کو انگیز کرتا ہے۔ مقالہ نگار نے ہندوستان کی تحریک ِآزادی میں مسلمانوں کے کردار کو نمایاں کرتے ہوۓ ان کی قربانیوں کو زیرِ بحث لایا ہے۔ حالاں کہ ہندوستان کی تحریک ِآزادی میں مسلمانوں کی شرکت کے حوالے سے متعد قلم کاروں نے وقتا ًفوقتا ًاپنی آرا پیش کی ہیں لیکن پروفیسر حدیث انصاری نے بدلتے ہوئےسیاسی ،معاشرتی اور لسانی تناظر کو ملحوظ رکھتے ہوۓ اس موضوع کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔موصوف نے قرآن پاک کی کئی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوۓ اسلام کے عالمگیر اور انسان دوست مذہب ہونے پر اصرار کیا ہے اور اسے فطرت سے ہم آہنگ قرار دیا ہے۔ہندوستان میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے ارتقا میں مسلمان حکمرانوں نے جو کردار ادا کیا ہے وہ مقالہ نگار کے مطابق عالمی سطح پر ہندوستان کی انفرادیت اور معتبر شناخت کا ذریعہ ہے۔مقالہ کئی اعتبار سے ہندوستان میں مسلم سماج اور اردو بولنے والے طبقوں کو درپیش مسائل کا ایک علمی اور ادبی اظہار ہے۔ مجلسِ ادارت کے نزدیک یہ مقالہ دور حاضر کے محققین کے لیے لچسپ ہوگا۔

  • Title : انتظار حسین اور ان کی سبز پنکھیا
    Author(s) : ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی
    KeyWords : حکایات،روایت،الف لیلہ،قصص الانبیا،بودھ جاتک،پران،کتھا،ملفوظات،داستان گوئی،تمثیل حیوانی جبلت،اقدار،ماضی،شہر افسوس۔
    View Full Paper
    View Abstract
    انتظار حسین کے فکروفن پر مبنی یہ مقالہ اردو کے ایک ہونہار استادکی ایک عمدہ کاوش کا نتیجہ ہے جس میں انہوں نے انتظار حسین کی افسانہ نگاری کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کی انفرادیت پر بحث کی ہے۔دراصل انتظار حسین ایک ایسے فن کار ہیں جو اپنی تہذیبی اور ثقافتی جڑوں کی تلاش میں اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ کوئی اس معاملے میں ان کی ہم سری کا دعوی نہیں کر سکتا ۔نیز انکشافات ذات کے حوالےسے بھی انہوں نے کئی افسانے تخلیق کیے۔یہا ں پر مقالہ نگار ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے ان کی مختلف کہانیوں کا تجزیہ کرتے ہوے ان کی افسانہ نگاری کی بنیادی خصوصیات کو نمایا ں کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس ضمن میں انہوں نے ’’زرد کتا‘‘،’’آخری آدمی‘‘،’’کایا کلپ‘‘،’’ہڈیوں کا ڈھانچہ‘‘،’’سیڑھیاں ‘‘،’’اپنی آگ کی طرف‘‘،’’وہ جو کھوے گئے‘‘جیسے افسانوں کا تجزیہ پیش کیا ۔اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں انتظار حسین کسی روایت کے قیدی نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اپنے افسانوں میں ہندودیومالا ئی عناصر اور اسلامی اساطیر کو تخلیقی سطح پر استعمال کر کے اردو افسانے کی تاریخ میں اپنا نام امتیازی حیثیت کا حامل بنا دیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کے بعد بھی افسانے کا مورخ ان کو اردو فکشن کا اہم ستون ہی لکھتا ہے۔مقالہ نگار اپنے تنقیدی فہم کے مطابق انتظار حسین کی اسلوبیاتی اور موضوعی اختصاصیت ’’سبز پنکھیا‘‘ کے نام سے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے

  • Title : بنگلہ اردو تنازعہ : اسباب و محرکات
    Author(s) : ڈاکٹر محمد غلام ربانی
    KeyWords : اردو،بنگلہ،مشرقی پاکستان،،مغربی پاکستان،ترجمہ نگاری،نوآبادیات ،قومی زبان،لسانی عصبیت،لسانی اکثریت،لسانی اقلیت۔
    View Full Paper
    View Abstract
    بنگال اردو کا ایک مرکز رہا ہے۔غیر منقسم بنگال کے اہم شہر کلکتہ میں اردو زبان و ادب کا فروغ ہوا ۔اس کے ساتھ بنگلہ دیش میں اردو زبان و ادب کا چرچا چلتا رہا۔فورٹ ولیم کالج میں اردو اور بنگلہ ایک ساتھ چلی تھیں۔بنگال کے ہر گوشے میں اردو بنگلہ کا باہمی رابطہ قابل رشک تھا۔بنگلہ زبان سے اردو زبان نے بہت سارے الفاظ مستعار لے کر اپنے دامن کو وسعت بخشی۔بنگلہ نے بھی اردو کو اپنا یا اور ہزاروں اردو الفاظ بنگلہ زبان میں شامل ہیں ۔کلکتہ اور ڈھاکہ میں بنگلہ زبان و ثقافت کے ساتھ ساتھ اردو ز بان و ثقافت بھی یکساں طور پر مقبول ہے۔اردو دوست خواتین و حضرات اردو مشاعرہ میں حاضر تو ہوتے ہی تھے اور ساتھ میں بنگلہ مشاعروں میں بھی حاضر ہو کر پیش کیے جانے والے کلام پر داد دیتے تھے۔یہی عام صورت حال تھی اٹھارہوی صدی سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل تک ۔۱۹۴۷میں تقسیم ہند کے بعد اردو کو پاکستانی حکومت نے اپنی قومی زبان بنانے میں زور دار کوشش چلائی۔اردو کو بنگالی پر زبردستی مسلط کرنا چاہا۔زبردستی کو مشرقی پاکستان کے بنگالی لوگ قبول نہ کر سکے۔بعد میں اردو کے خلاف مظاہرہ ہوا۔جلسے ہوۓ۔جلوس میں بندوق سے گولی چلی۔چار آ دمی جان بحق ہوۓ۔اس وقت سے بنگال اردو تنا زعہ شرو ع ہوا۔تنازعہ کے اسباب میں قو میتوں کا تضاد اہم ہے۔اس کے علاوہ اردو کو مشرقی پاکستان کی حکومتی زبان زبردستی طور پر قرار دینا بھی تنازعہ کا اور ایک سبب بنا۔دوسری طرف بنگالیوں پر مسلم افواج میں بھرتی کے دروازے بند کرنا ۔سرکاری اعلی نوکری کی لیے اردو داں ہونا لازم قرار دینا،زریعہ تعلیم میں صرف اردو کو اہمیت دینا وغیرہ اسباب کی بنا پر بنگلہ اردو تنازعہ ہوا تھا۔۱۹۷۱ کے بعد بنگلہ دیش میں کچھ دنوں تک اردو کو حکارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔اب نظریہ میں تبدیلی آئی۔اب بنگلہ دیش میں بھی اردو کو ایک ترقی یافتہ زبان کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔اردو سے بنگلہ میں کھلے عام تراجم ہو رہے ہیں۔ بنگلہ ادب کے وسیع خزانے سے اب اردو والے بھی مواد حاصل کر رہے ہیں۔اب بنگلہ دیش میں ایک ہی مجلس میں بنگلہ شاعر اسد چودھری اور اردو شاعر احمد الیاس مشاعرہ میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی اپنی شعر و شاعری سے سامعین کو محظوظ فرماتے ہیں ۔اگر چہ سیاسی میدان میں بنگلہ اردو تنازعہ کو زندہ رکھنے کے لیے کبھی کبھی بعض سیاسی لوگوں کی ہوشیاریاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔زیر نظر مقالہ میں ان تمام حالات و واقعات کو مفصل اور مدلل بیان کیا گیا ہیں۔امید ہیں کہ قارئین اسےپسند کریں گے۔

  • Title : ’’ذکر جاوید‘‘اردو کا اولین رپوتاژ
    Author(s) : ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری
    KeyWords : متن۔ولی عہد،رپوتاژ،قصیدہ نگاری،سہرا،اسٹیٹ سبجکٹ،عبوری حکومت،حرجانہ،بکرمی تحریک،رمل نجوم،مسدس،مہابھارت،پارسی تھیٹریکل کمپنیاں ،دارالعلوم،ایوان شاہی،آشرم،تعلیم نسواں،راجپوت،گوشوارہ۔
    View Full Paper
    View Abstract
    کشمیر اپنے فطری حسن کی بدولت ہمیشہ سے دوسروں کو اپنی طرف مائل کرتا رہا ہے۔یہاں کی تاریخ ،جغرافیہ ،سیاست اور ثقافت کے بارے میں جہاں بہت کچھ لکھا گیا ہے ،وہا ں اردو زبان و ادب کے بارے میں بہت کم تحقیقی کام ہوا ہے۔حالانکہ اس وقت یہ پورے ہندوستان میں اردو کا سیب سےبڑا مر کز بن رہا ہے۔فاضل مقالہ نگار نے یہاں ایک ایسی دریافت سامنے لائی ہے ۔جس سے اردو کی ادبی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوتا ہے۔ساتھ ہی اس مقالہ میں جموں و کشمیر کے ایک خاص دور حکومت کے کچھ گوشے بھی سامنے لائے گئے ہیں۔’’ذکر جاوید‘‘کو اردو کا پہلا رپوتاژ مان کر اس فن اور اس کی روایت کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ردیافت شدہ کتاب میں شامل دیگر شعری و نثری مواد کی ثقافتی و فنی قدروں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔مقالے میں اس وقت کے نظام حکومت کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت ساری تاریخی،سیاسی اور ثقافتی باتوں کو زیر بحث لایا گیا ۔امید کی جا رہی ہے کہ ترسیل کے قارئین اس مقالے کو بہت پسند کریں گے اور محققین بھی اس سے استفادہ کریں گے۔

  • Title : مشترکہ تہذیبی کلامیہ اور اردو زبان (مولانا وحیدالدین کی تحریروں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ)
    Author(s) : ڈاکٹر عرفان عالم
    KeyWords : مشترکہ تہذیب،اسلوب،تخئیل،تقسیم برصغیر،دعوت،امن،ثقافتی بوقلمونیت،الرسالہ،جمالیات،انشائیہ،مضمون، اسلامی روایات۔
    View Full Paper
    View Abstract
    ادب کسی بھی معاشرے کے فکری اور جمالیاتی رویّوں کا ایک ایسا ترجمان ہوتا ہے جس میں اس معاشرے سے وابستہ ہر شخص کی آرزوؤں اور امنگوں اور تعصبات و ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ہندوستانی معاشرہ تقسیم برصغیر کے بعد جس ٹوٹ پھوٹ اورانتشار و اضطراب کا شکار ہوا ہے اس کی کوئی بھی مثال تاریخ میں ناپید ہے۔اردو زبان اور ادب نے اس تہذیبی اور ثقافتی انتشار کو کس طرح انگیز کیا ہے اس کا جائزہ لینے کی کوشش زیر نظر مقالہ میں نظر آتی ہے۔مقالہ نگار نے اردو ادب کی مختلف نثری اصناف کی تعمیر و تشکیل پر مباحثہ قائم کرکی اپنے استدلال کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔اس مقالہ میں مقالہ نگار نے اسلام کے معروف اسکالر اور راہنما مولانا وحیدالدین خان کی نثری تحریروں کا تجزیہ پیش کر کے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ موصوف موجودہ ہندوستان میں اردو زبان کے ایسے سرکردہ دانشور ہیں جنہوں نے اپنے معروف اور مشہور رسالہ ’’الرسالہ‘‘میں مشترکہ تہذیب کے سچے اور پکے علمبرداد ہونے کا وقتاًفوقتاً عمدہ ثبوت پیش کیا ہے۔زیر نظر مقالہ اپنے مندرجات کی بنیاد پر دلچسپی کا حامل ہے جسے قارئین ترسیل توجہ سے پڑھیں گے۔

  • Title : مرد ناول نگارو ں کا تانیثی شعور
    Author(s) : ڈاکٹر نصرت جبین
    KeyWords : تانیثیت،فکشن،حقیقت نگاری،تحریکات،رجحانات،مغرب،سرسید تحریک،ترقی پسند تحریک،جمالیات،ما بعد جدید تھیوری،مشرقی اقدار ،اسلامی روایات۔
    View Full Paper
    View Abstract
    اردو ادب کا معاصر تخلیقی منظر نامہ کئی اعتبار سے اپنی ثروت مندی کا اظہار کر رہا ہے۔یہ فنی اور فکری اعتبار سے برصغیر کی کسی بھی زبان کے ادب سے انکھیں چار کرنے کی تب و تاب سے معمور ہے۔موضوعاتی سطح پر ما بعد جدید دور کےاردو فکشن میں رنگا رنگی اور تنّوع پایا جاتا ہے۔تانیثیت اس دور کا اہم کلامیہ ہےجو خواتین تخلیق کاروں کے یہاں کسی نہ کسی صورت میں نظر آتا ہے۔زیر ِنظر مقالہ میں خواتین تخلیق کاروں کے بر عکس اردو کے نامور مرد تخلیق کاروں کے یہاں تانیثی شعور کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مقالہ نگار نےمعروف فکشن نگار حسین الحق کے مشہور ناول ’’اماوس میں خواب‘‘اور پیغام آفاقی کے معروف ناول ’’دوست ‘‘اور ’’مکان‘‘ میں تانیثی شعور کو تلاش کر کے فکشن نگار وں کی ایک نئی قبیل کو متعارف کرنے کی عمدہ کوشش کی ہےکیوں کہ ابھی تک ادب پارو ں میں تانیثیت کے مباحث خالص خواتین تخلیق کاروں سے مخصوص تصور کیے جاتے تھے لیکن یہاں پر مقالہ نگار نے اپنے تجزیے سے موجودہ روایت کا رخ موڑا ہے جس سے یقیناً تفہیم و تعبیر کا ایک نیا زاویہ سامنے آیا ہے ۔علاوہ ازیں مقالہ نگار نے تانیثیت اور نسوانیت جیسی اصطلاحوں کی بھی وضاحت کرتے ہوئے اس حوالے سے موجودہ خلط مبحث کو دور کرنے کی سعی کی ہے ۔امید کی جا رہی ہے کہ مقالہ فکشن کے قارئین کے حلقوں میں پسند کیا جائے گا۔

  • Title : اردو اور سکھ مذہی
    Author(s) : ڈاکٹر عبدالحئ
    KeyWords : صحیفہ،مذہبی متون،ترجمہ کاری،اردو رسم الخط،گور مکھی،گرنتھ صاحب،جپ جی،لسانی شراکت،پوڑی،بھاشاوبھاگ۔
    View Full Paper
    View Abstract
    اردو کسی خاص مذہب کی زبان نہ تھی اور نہ ہے بلکہ لسانی حقائق یہ ہیں کہ اس نے ہر مذہب کی ترویج و ترسیل اور تشہیر و تعبیر میں خندہ پیشانی سے کام کیا ہے ۔اس بات کا اندازہ زیر نظر مقالہ کے مندراجات سے احسن طور پر لگایا جا سکتا ہے۔ےہ مقالہ ایک جواں سال قلم کار کے زور قلم کا نتیجہ ہے جس میں انہوں نے اردو زبان میں سکھوں کے مذہبی متون کے تراجم پر کھل کر بحث کی ہے۔سکھوں کے مذہبی متون مثلاً گرو گرنتھ صاحب،گرو دسم گرنتھ،جپ جی صاحب،وغیرہ قابل ذکر ہیں۔اس ضمن میں خواجہ دل محمد،محمد اجمل خان،خواجہ دل نواز،شکیل الرحمٰن ،کالا سنگھ بیدی(ایم ۔اے)کے ذریعے کیے گئے ترجموں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔مزید براں پروفیسر ناشر نقوی ،امام مرتضیٰ نقوی،شارب ردولوی،محمد عزیز کے بر محل حوالوں سے مقالہ کی صحت مندی میں اضافہ ہواہے۔ترجموں میں مترجمین نے جستہ جستہ اردو کے اشعار خوب پیوست کیے ہیں جس سے ترجمے کا حسن اور بھی نکھر کر سامنے آیا ہے۔اس طرح ےیہ مقالہ اپنی نوعیت کا منفرد مقالہ ہےجسے مقالہ نگار کی کامیاب سعی سے قرار دیا گیا یے۔

  • Title : ’’نعت ،مرثیہ ،عرفان‘‘ ایک نئی علمیاتی بازیافت
    Author(s) : احمد رشید(علیگ)
    KeyWords : اخلاقی اقدار،اصلاح پسندی، مادّہ پرستی،روحانیت،مذہبیت،جمالیات،عرفان،تصوف ،شاعری،آفاقیت،نعت،رثائی ادب۔
    View Full Paper
    View Abstract
    عصر حاضر سیاسی،سماجی اور تہذیبی کشاکش اور مادّی تحصل اور ترقی سے عبارت ہے۔مادیّت کے لبادے اوڑھ کے اس دور کی نا چاکیاں اپنے عروج پر ہیں ۔اس دوران علمی وادبی سرگرمیوں کا جاری رہنا کسی نعمت ِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔حالیہ برسوں ۲۰۱۷ء)میں شبعہ فلسفہ ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ کے معروف استاد اور ادیب ڈاکٹر حیات عامر حسینی کی عمدہ تصنیف ’’نعت ،مرثیہ،عرفان: ایک علمیاتی بحث کے عنوان نے منصئہ شہود پر آئی جس کا سنجیدہ علمی و ادبی حلقوں میں مناسب استقبال کیا گیا۔زیرِ نظر مقالہ سر زمینِ علی گڑھ سے ہی تعلق رکھنے والے قلم کار جناب احمد رشید (علیگ)کی کاوش ہے جس میں مزکورہ کتاب کے مشمولات پر گہرائی سے گفتگو کی گئی ہے۔اس مقالے میں نعت کی روایت اور اس کی مختلف تو جیہات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اور عربی اور فارسی کی روایت کا بھر پور حوالہ دیا گیا ہے۔اسی طرح اردو میں مرثیہ گوئی کے فن اور اس کی روایت کو موضوع ِ بحث لایا گیا ہےاور واقعۂ کربلا کی علمی اور روحانی اہمیت و معنویت کو بھی زیرِ بحث بنایا گیا ہے۔مقالہ نگار نے اس کتاب کے مشمولات پر گرہ کشائی کرتے ہوئے ’عرفان‘کی اصل روح اور اس کے مدراج پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ کتاب کے مصنف کا حوالہ دیتے ہوئے مقالہ نگار نے کہا ہے کہ میر انیسؔ کے بعد اردو مرثیہ میں کوئی قابل ذکر پیش رفت اس لیے نہیں ہوئی کہ اردو کے اکثر شعرا کے قلب و نظر میں کربلائی مصائب کے دردو کرب کا فقدان ہے۔اس طرح کے خیال انگیز نکات سے بھر ےیہ مقالہ اپنی سرشت میں اہم تصور کیا جاتا ہے۔ہمیں امید ہیں کہ اس مقالے کے مندرجات سے نئے مباحث قائم ہو سکتے ہیں۔

  • Title : اردو میں نعتیہ شاعری کی روایت اور ’’روشنی کے خدوخال‘‘
    Author(s) : محمد زماں نظامی
    KeyWords : نعتیہ ادب،روایت،ہئیت،شاہنامہ اِسلام،مدوجزر اسلام،داریں ،اخلاقیات،سیاست،معاشیات،جہالت،عربی تہذیب، سیرۃ النبیﷺ،ادب عالیہ
    View Full Paper
    View Abstract
    زیر نظر مقالہ اردو کے ایک نعت گو رفیع الدین راز ؔ کے نعتیہ مجموعہ ’’روشنی کے خدوخال‘‘ کی تحقیق و تنقید پر مبنی ہے۔یہ نعتیہ مجموعہ اردو کے اعلی پایہ کے نعتیہ مجموعہ جات کی قبیل سے تعلق رکھتا ہے ۔مقالہ نگار کے مطابق اس نعت گو نے سیرت نبیﷺ کے اتنے اور اتنے گوشوں کو اپنی قادرالکلامی سے نمایاں کیا ہے جس کی مثال اردو میں کم ہی ملتی ہے۔اس مقالہ کے مندرجات اس لیے بھی قابل ِ مطالعہ ہیں کہ مقالہ نے جستہ جستہ شاعر کے نعتیہ کلام کے حوالے درج کیے ہیں جس کی وجہ سے یہ مقالہ اپنے آپ میں دلچسپ ثابت ہوا ہے۔’’روشنی کے خدوخال‘‘ میں شامل اشعار کو شاعر نے مسدس کی ہئیت میں پیش کیا ہے اوریہ تئیس ابواب اور ۴۰۶ بندوں پر مشتمل ہے۔ الطاف حسین حالی کی مسدس ’’مدو جزر اسلام‘‘،حفیظ جالندھری کی ’’ شاہنامہ اسلام‘‘،محشر رسول نگری کی’’فخرِ کونین‘‘ اور احسان دانش کی ’’داریں‘‘کے بعد ’’روشنی کے خدوخال‘‘ مسدس کی ہئیت میں اردو ادب کا نمائندہ کارنامہ ہے۔ اس مقالہ میں مقالہ نگار نے مستند کتابوں کے حوالہ جات شامل کر کے مقالے کو ایک طرح کا استناد فراہم کیا ہے، ادب کے جملہ شیدائیوں ست عموماً اور آ ں حضرت ،فخرِ مودات،امام لانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ،احمد مجتبیٰﷺ کی حیات مبارکہ سے اُنس رکھنے والوں کے لیے خصوصاً یہ مقالہ کئی اعتبار سے اہم ہے ۔امید کی جا رہی ہے کہ اسے نہایت ہی ذوق ق شوق سے پڑھا جائے گا۔

  • Title : ولیؔ دکنی کا شاعر انہ اجتہا
    Author(s) : ڈاکٹر امتیاز احمد،ڈاکٹر شاکر علی صدیقی
    KeyWords : سراپا،بصری حِسی پیکر،شاعرانہ اجتہاد ،کیفیاتِ عشق،عظمتِ آدم،رعائتِ لفظی،لفظی مناسبت،عشقِ حقیقی،عشقِ مجازی،معنی آفرینی،وصل ،فراق۔
    View Full Paper
    View Abstract
    سبکِ ہند کی فارسی شاعری م نے اٹھارویں صدی میں یقیناً شمالی ہندوستان میں اردو شاعری اور خصوصیات کے ساتھ اردو غزل کی شعریات کی تعمیر و تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا ۔اس دور میں محمد ولیؔ دکنی کو ریختہ کا باکمال شاعر تصور کیا جاتا ہے جس کے مقام و مرتبے تک شاذ ہی کسی نے پہنچنے کا دعویٰ کیا ہو۔ولی کو انگریزی کے چوسر،فارسی کے رودکیؔ اور عربی کے مہلہل کا ہم سر قرار دیا جاتا ہے،بلاشبہ ولیؔ دکنی اردو میں ایک خاص مقام کے متحمل ہیں۔ولیؔ کا انفراد یہ ہیں کہ اس نے اردو شاعری کے دامن کو فارسی کے بیش بہا استعارات ،تشبیہات،تلمیحات،محاورات،اور دیگر شعری وسائل سے مالا مال کیا ہے۔وہ اردو کا پہلا باقائدہ شاعر ہے جس نے شعوری طور پر اردو شاعری کونئے الفاظ و تراکیب سے آشنا کیا۔ شاعری میں ولیؔ کے موضوعات کا دائرہ ہر لمحہ بدلتی زندگی کے معاملات سے لے کر عشق اورمتعلقات عشق تک ہیں ۔ اردو شاعری کو فارسی کے موضوعات اور اسلوبیاتی محاسن سے لبریز کرنے میں ان کی کوششوں کو خشتِ اول تصور کیا جاتا ہےاور اس شعریات کو آگے چل کر میر تقی میرؔ،مرزا محمد رفیع سوداؔ، جیسے نابغۂ روز گار شعرا نے تشکیل دیا۔ اس طرح ولیؔ کو اٹھارویں صدی میں اردو کا اہم اور نمائندہ شاعر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس مقالہ میں مقالہ نگاروں نے جو مقدمات زیرِ بحث لائے ہیں وہ آج کے ادب میں بھی اپنے اہمیت رکھتے ہیں ۔ یہ مقالہ اس اعتبار سے شاعری بلخصوص کلاسیکی اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے اہم ہیں۔

  • Title : ’’اہلِ کتاب ‘‘کا بیانیاتی تجزیہ
    Author(s) : ڈاکٹر الطاف انجم
    KeyWords : بیانیات،مابعد جدید تھیوری،فکشن ،واقعہ ،راوی،فکشن شناسی،مابعد جدیدیت،ساختیات، پس ساختیات، ردِ تشکیل،متن،تانیثیت،ڈسکورس۔
    View Full Paper
    View Abstract
    اردو کا معاصر افسانوی منظرنامہ کئی اعتبار سے قابلِ توجہ ہے۔اس دور میں جن افسانہ نگاروں نے اپنی تخلیقی توانائی اور فنی ہنرمندی کا ثبوت پیش کر کے اس منظرنامے کو پر کشش اور باوقار بنا یا،ان میں محمد بشیر مالیر کوٹلوی ایک اہم نام ہیں۔زیرِ نظر مقالہ میں ان کے ایک افسانہ ’’اہل کتاب‘‘ کا تجزیہ بیانیات کی روشنی میں پیش کیا ہے ۔اردو میں مابعد جدید تھیوری کی زائیدہ تنقید کے اطلاقی نمونے اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ مقالہ نگار نے اس مقالےمیں ما بعد جدید تنقید اور بیانیات کی تعریف و توضیح کرتے ہوئےاس کی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے۔بنیادی طور پر یہ مقالہ تھیوری کے اطلاق پر مبنی ہے۔اس مقالے میں بیانیات کے مختلف عناصر کا اطلاق اس افسانہ’’ اہلِ کتاب‘‘پر کیا گیا ہے جن میں (۱)۔فعل کی موجودگی (۲)۔عمل کی تبدیلی (۳)۔ تبدیلی میں زمانے کی شرکت (۴) کردار کا متحرک تصور /کردار کا ارتقا، اہم ہیں ۔مقالہ نگار نے ان عناصر کا اطلاق اس افسانے پر اپنی صوابدید کے مطابق کیا ہے۔ اس طرح یہ تجزجاتی مقالہ اس شمارے میں مناسب اہمیت کا حامل ہیں ۔