Paper

  • Title : اکیسویں صدی میں ارد و ناول:مزاج و معیار
    Author(s) : پروفیسر قدوس جاوید
    KeyWords : سیال، بصیرت مندانہ،تکثیری،گلوبلائزیشن،دانشورانہ تحرک، اکتشافی درو بست، سانجھی تہذیب، تہذیبی تشخص،میٹا فکشن، فیبولیشن، سر فکشن، اینٹی ناول، کنزیومرزم، بازاریت، انفوٹیک، سلیکیون، تماشہ سوسائٹی
    View Full Paper
    View Abstract
    یہ حقیقت واضح ہے کہ سال یا صدی کے بدل جانے سے ،زندگی اور ادب میں سب کچھ اچانک نہیں بدل جاتا ۔تبدیلیاں آتے،آتے ،آتی ہیں اور اکثر نئی قدروں کے ساتھ ساتھ قریب یا دور کی سابقہ قدریں بھی زندہ ہو اٹھتی ہیں ۔ اکیسویں صدی کا زمانہ بھی اس تغیر و تبدل سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔ اس تیز رفتار اور ترقی پذیر دور نے انسانی زندگی کے دوسرے شعبہ جات کے ساتھ ساتھ ادب کی تخلیقی ، تفہیمی اور تعبیر ی عمل کے روایتی تصورات پر کاری ضرب لگاکر اسے بعض نئی حقیقتوں اور صداقتوں سے روشناس کرایا ہے۔ موجودہ صدی کی ان گزرتی دہائیوں نے زندگی کو کس نوع کے حالات و معاملات سے متعارف کرایا اس کا بھر پور عکس اردو ناول میں دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔اس تحقیقی مقالے میں اردو ناول کے تاریخی پس منظر اور بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ ناول کی تبدیل ہوتی ہوئی فکری و فنی ترجیحات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ اکیسویں صدی کے اوائل تک آکر، گلوبلائزیشن، کنزیومرزم، تہذیبی و اخلاقی اقدار کی شکستگی اور سیاسی ،سماجی و معاشی بحران کے سبب ناول میں موضوعی ،لسانی اور فنی و تکنیکی روایات اور رسومیات سے جس طرح انحراف کا عمل شروع ہو چکا ہے اور ناول کی جو نئی شعریات اپنا وجود پا چکی ہے اس حوالے سے مذکورہ تحقیقی مقالے میں باتفصیل مکالمہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

  • Title : الف لیلہ ولیلہ ، شہر زاد اور جدید فکشن نگار
    Author(s) : پروفیسرناصر عبا س نیر ّ
    KeyWords : صنفی حدود، زمانی حدبندیاں، ثقافتی شناخت، شعریات، شب گردی، چرمی کاغذ، خطی نسخہ، کلاسیکی کینن، تشکیلات، جادوئی حقیقت نگاری، تانیثیت پسند
    View Full Paper
    View Abstract
    "الف لیلہ و لیلہ"کا شمار عالمی ادب کی معروف بلکہ مقبول ترین تخلیقات میں ہوتا ہے۔کہانی در کہانی کی تکنیک میں تخلیق ہوئے اس داستان میں بیک وقت کئی سارے ممالک کی کہانیاں ، وہاں کی تہذیب و تمدن ،زبان و بیان ، اور ثقافت وغیرہ کی رنگینیاں اور رعنائیاں سموئی ہوئی ہیں۔نہ صرف مشرقی فکر و فہم اس کی دلچسپی و سحرنگاری کا قائل ہے بلکہ یورپی ممالک اور وہاں کی معاشرت و ثقافت بھی اس کی غیر معمولی فن کاری ، اور لسانی و بیانیہ کی کارگزاریوں سے مرعوب ہوگئے ہیں۔ نہ صرف مشرق میں بلکہ یورپ میں بھی ترجمہ ہونے کے بعد، اسے عوامی جگہوں پر سنا جاتا تھا اور تنہائی میں، اپنی اپنی خواب گاہوں میں پڑھا بھی جاتا تھا۔گویا یہ داستان ، انسان کے سماجی اور انفرادی وجودوں سے بہ یک وقت کلام کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس تحقیقی مقالے میں الف لیلہ و لیلہ کی شعریات ، اس کے بیانیہ اور کرداروں کی نئی تعبیر جیسے ذیلی موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ کلاسیکی ادب کی بالکل نئی تفہیم و تشریح کے حوالے سے یہ ایک عمدہ مقالہ ہے جو مطالعے کی جدید پرتوں کو وا کرتا ہے۔

  • Title : اقبال کے نثر پاروں میں قران کا تذکرہ
    Author(s) : ڈاکتر توقیر احمد خان
    KeyWords : قرانی مفاہیم ،دفع بلیغات ،رفع آسیب ،قرانی تلمیحات ،امور ِدینوی ،مفتیان ِ دین،عامتہ المسلمین
    View Full Paper
    View Abstract
    اردو اور فارسی ادب میں ڈاکٹر سر محمد اقبال کی اہمیت اور مقبولیت زیادہ تر بطور شاعر کے تسلیم کی جا چکی ہے ۔ ان کی اردو اور فارسی شاعری کی محققین و ناقدینِ ادب نے ان گنت تعبیریں اور تاویلات پیش کی ہیں۔شاعری کے علاوہ موصوف نے اردو اور فارسی زبان میں نثر کا جو سرمایہ چھوڑا ہے وہ ان کے منظوم کلا م سے کسی بھی صورت کمتر یا کم وقیع نہیں ہے بلکہ اس میں اقبال کے فکرو فن کے جو نادر نمونے سموئے ہو ئے ہیں وہ ادبی تاریخ کا ایک لازوال باب ہے ۔لیکن شاعری کے برعکس ان کی نثری تخلیقات سے بیشتر بے اعتنائی ہی برتی گئی ہے۔نتیجتا اقبالیات کے ایک انتہائی اہم گوشے سے محبان ادب و اقبال بڑی حد تک ناواقف ہی رہے۔ان کی نثری تصانیف "خطبات ،خطوط اور مضامین "کے مطالعے سے قوم وملت اور دین و مذہب سے ان کے تصورات اور عقائد کی وضاحت مزید کھل کرسامنے آتی ہے۔یہ مضموں اقبال کے نثر پاروں میں باربار جگہ پائے ایک اہم فکری پہلو "قران کا تذکرہ "کے حوالے سے ایک عمدہ تحقیقی و تنقیدی کارنامہ ہے جس سے اقبالیات کے میدان قابل قدر اضافہ قرار دیاجا سکتا ہے ۔

  • Title : ابن انشا کے مزاحیہ اسلوب کا اہم عنصر تحریف نگاری: ایک مطالعہ
    Author(s) : پروفیسر روبینہ شاہین /ڈاکٹر فرحانہ قاضی
    KeyWords : طنزیہ اسلوب، مزاحیہ انداز، طرزنگارش،تحریفی صورت، ابتدائی تعلیم ، ثانوی تعلیم ، تعارفی مضامین، تحریف ، شگفتہ ذہن ، جوگ بجوگ
    View Full Paper
    View Abstract
    ابن انشا سفرنامہ نگار، کالم نویس، طنز و مزاح نگار، شاعر اور مضمون نگار کی حیثیت سے اردو کی ادبی کائنات میں اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ابن انشا کی تخلیقات میں جہاں موضوعاتی اعتبار سے تنوع پایا جاتا ہے وہیں ہئیتی و تکنیکی سطح پر بھی انہوں نے طرح طرح کے تجربات کو راہ دی ہے۔مزاح نگاری کی چاشنی ان کے کلام کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے۔مزاح نگاری انتہائی پیچیدہ اور دشوار عمل ہے جو مزاح نگار سے انتہائی سنجیدگی اور ذہانت و متانت کا مطالبہ کرتی ہے۔ابن انشا اس مشکل اور دشوار گزار مرحلے کو بھی بڑی دانشوری اور بہ آسانی سر کرنے میں کامیاب نظر آتے ہے۔اپنی تخلیقات میں مزاح کی شگفتگی کئی ایک طریقوں سے پیدا کی جاسکتی ہے جن میں تحریف نگاری ایک اہم ذریعہ ہے۔ مذکورہ تحقیقی مقالے میں ابن انشا کی ادبی تحریروں میں تحریف نگاری کے استعمال اور اس سے پیدا ہونے والے منفرد اسلوب مزاحیہ اسلوب سے متعلق حقائق کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔اپنی نوعیت کا یہ بہت مفید مقالہ ہے۔

  • Title : ادب میں وجود اور امکان کا مابہ الامتیاز
    Author(s) : ڈاکٹر غلام شبیر اسد
    KeyWords : ترفعات ، آثار وجود، عصائے موسیٰ،مظہر فطرت ، کلامیہ، روایت گزیدہ ، تخلیقی وارفتگی ، اشٹیب لشمنٹ،صریح الاثر، منحنی
    View Full Paper
    View Abstract
    The debate of literary and non-literary is as old as that of word and meanings in the history of men's writing and is going on since time immemorial. The logics have always been presented in the favor and against it Now this debate has taken the form of two proper schools of thought. This article premises some orientations of this topic. The Opinions of the critics of the East and West bearing literature for the sake of Literature have been presented as a rationale so that the distinction between literary and non-literary may be clarified.

  • Title : آئین زرتشت: اسلامی تناظر میں :اجمالی جائزہ
    Author(s) : ڈاکٹر سید عباس شاہ
    KeyWords : ناوجوت، سدھرے،مزدائیت، اسلامی اشعار، کستی، آہورامزاد، پادیاب،آتش بہرام،آتش ادران،آتش دادغہ، پاومحل،باج، افرنگان،فروکھشتی،سٹم ، آشا، آشوئی، طریقت، تن پسلن
    View Full Paper
    View Abstract
    ”زرتشت ازم“کے پس منظر و پیش منظر کے بارے میں مذہبی اور علمی اسکالرز مختلف تصورات اور خیالات کے حامل ہیں ۔ بعض اسے ایک انتہائی قدیم مذہب اور بعض محض ایک خیالی کردار سے تعبیر کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض دانشور اس تصور کے بھی مداح ہیں کہ دنیا کے اہم ترین مذاہب نے اپنی تعمیر و تشکیل اور دائرہ کار کو وضع کرنےسلسلے میں زرتشت ازم سے بھر پور فیض حاصل کیا ہے ۔ زرتشت ازم اپنی ایک مضبوط و مستحکم تاریخ رکھتا ہے ۔ اس کے اپنے مخصوص اصول و قواعد ہیں جن کی بجا آوری اس سے منسلک ہر فرد کے لیے لازمی ہے۔ اس تحقیقی مقالے میں زرتشت ازم کے تاریخی پسِ منظر ، اس کی اہم تعلیمات ، زندگی اور زمانے کی تخلیق و ایجاد سے متعلق اس کے تصورات، اسلام سے اس کی مشابہتیں اور مرور زمانے میں اس میں ہوئے بے شمار تحریفات جیسے اہم نکات کو بالتفصیل سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ مقالہ اپنی فکر اور مواد کے لحاظ سے ایک قابلِ مطالعہ دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔

  • Title : پنڈت نند لال کول طالب کشمیری کے ادبی نقوش
    Author(s) : ڈاکٹرمحی الدین زورکشمیری
    KeyWords : گوشہ نشینی ،رشحا ت تخیل ،مرقع افکار ،بے قافیہ ،عالم مجاز ،قوس و قزح ،شفق شام ،گنگا جمنی تہذیب ،مسد س،حزن وغم
    View Full Paper
    View Abstract
    دبستان جموں وکشمیر سے جنم لینے والے ادباء و شعرا اور محققین و ناقدین کی علمی وادبی خدمات کا اعتراف نہ صرف ریاستی اور قومی بلکہ بین الااقوامی سطح پر بھی کیا جاچکا ہے ۔یہاں کی زرخیز مٹی دیگر علوم وفنوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کی آبیاری میں بھی اپنی مثال آپ ثابت ہوئی ہے ۔کئی سارے خارجی و داخلی وجوہات کی بنا پر یہاں کے بہت سارے صفِ اول کے تخلیق کار اور تحقیق و تنقید نگار وقت اور زمانہ کی لاپر واہی کے شکار ہو گئے ۔ ان کی لازوال اور معیاری ادبی خدمات کو سامنے لانا ، ادبی حلقوں میں ان کی اہمیت و منعویت کو اجاگر کرنا اور ان کی تخلیقی و تنقیدی ذہانت سے ادب نواز حلقوں کو فیضیاب کرانا ،نہ صرف وقت کی اشد ضرورت ہے بلکہ ہماری بڑی ذمہ داری بھی ہے ۔ایسے ہی گم گشتہ قلم کاروں میں ایک اہم نام پنڈت نند لال کول طالب کاشمیر ی کابھی ہے ۔طالب کشمیر ی ریاست جموں و کشمیر سے وابستہ اردو زبان کے ایک نامور تخلیق و تنقید نگار گزرے ہیں جن کی بیش بہا ادبی خدمات کو اس تحقیقی مقالے میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔یہ مقالہ اردو زبان وادب بالخصوص دبستان جموں و کشمیر کے ادب نواز حضرات کے مطالعے میں ایک اہم اضافے کا موجب ہوگا ۔

  • Title : اسد محمد خان کے شعری تراجم کا تقابلی مطالعہ
    Author(s) : ڈاکٹر عبدالرجما ن فیصل
    KeyWords : اصل زبان ،ترجمے کی زبان ،گمشدہ انجیل ،تہذیبی انسلاکات ،تخلیقی ترجمہ ،کرن پھول ،بکھری پنکھڑیاں ،مابع الطبیعات ،جوارین
    View Full Paper
    View Abstract
    کسی بھی معاشرے اور تہذیب وثقافت کی اصل روح سے واقفیت حاصل کرنے اور اس کی چاشنی و حلاوت سے محظوظ ہونے میں دوسرے ذرائع کے ساتھ ساتھ ترجمہ نگاری ایک مفید اور نہایت اہم وسیلہ ہے ۔موجودہ دور میں بھی ترجمہ نگاری کی اہمیت و منعویت اور قدرو منزلت کا اعتراف ہر حساس فرد اور بیدار معاشرے کو ہے ۔بلکہ اگر یوں کہا جائےکہ ترجمہ نگاری کی بدولت آج ہم دنیا کی ان گنت تہذیبوں ،ثقافتوں اور ادب و دیگر علوم سے زیادہ فیضیاب ہوتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ترجمہ نگاری کا فن جس قدر مفید ہے اسی قدر و مشکل بھی ہے ۔بالخصوص ادبی تخلیقات کا ترجمہ اپنی سرشت میں انتہائی نازک اور پیچیدہ عمل ہے ۔اسد محمد خان معاصر ترجمہ نگاری کی روایت میں ایک قابل قدر نام ہے ۔وہ اس میدان میں اپنی ہنر مندیوں اور صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں کامیاب ہوا ہے ۔اس تحقیقی مقالے میں اسدمحمد خان کے تراجم کا تقابلی مطالعہ پیش کرکے ان کی ترجمہ نگاری کے معیار و مقام کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔

  • Title : اس آباد خرابے میں :چند معروضات
    Author(s) : ڈاکٹر غلام حسین
    KeyWords : نعمت غیر مترقبہ ،غماز،محترز،طوعاًکرہاً،لحن،گریز پا،ریفارمیٹری ،طالع بیدار،حلیم الطبع،تفویض ،بازار حسن ،قوت لایموت ،بدظن ،ممنوع،عزم ،تبحر علمی،معاندانہ ،استفسار،مائل التفاف،یادش بخیر،متنفر،مرتکب،قرن ،کیف و کم ،محاضرات،مرہون منت،منتج،اعادہ،معتدبہ،تعلق خاطر،عزم سفر،ودیعت،محصور،فال نیک ،دل افروز،رازافشا،تضیع اوقات ،گرگ باراں دیدہ،گردانا
    View Full Paper
    View Abstract
    اردومیں خودنوشت سوانح حیات کی مضبوط اور مستحکم روایت ہے۔ اس صنفِ ادب میں خودنوشت نگار اپنی زندگی اور زمانے کی تمام تر رنگینیوں اور نشیب و فراز کو باتفصیل پیش کرتا ہے۔ حقیقت پسندی اور غیر جابن داری کے ساتھ ساتھ معیاری اسلوبِ نگارش اس صنفِ ادب کی جان ہے ۔مولانا جعفر تھانیسرکی اوّلین آبپ بیتی ”کالا پانی “ سے لے کر تا ایں دام اردو کے بڑے بڑے شعرا و ادبا نے اپنی آپ بیتیاں رقم کر کے اس میدان میں قابلِ قدر اضافے کیے ہیں۔ انہیں فنی شخصیات میں اخترایمان کا نام بھی قابلِ ذکر ہے۔ادبی دنیا میں اخترایمان کی مقبولیت یوں تو بالخصوص اُن کی نظم نگاری کی بدولت قائم و دائم ہے لیکن نثری اسلوب میں بھی انہوں نے جو کارنامے سر انجام دئیے ہیں وہ اردو ادب کا قابلِ فخر سرمایہ ہے ۔”اس آباد خرابے“ میں کا شمار اردو ادب کی چند مقبول و معیاری خودنوشت سوانح حیات میں ہوتا ہے۔ یہ کتاب فکر وفن اور اظہار خیال کے اعتبارسے مثر اورمکمل ہے۔اس میں مسرت اور بصیرت کے ساتھ ساتھ فکری آگہی بھی شامل ہے ۔فلمی دنیا سے وابستہ مشاق اور معتبرمصنف کی کا وش کا یہ ثمرہ اردو ا دب کا وقیع سرمایہ ہے ۔زبان رواں دواںبا محاورہ اور سلیس ہے ۔سچ پوچھیے تو جدید نثر کا یہ اعلیٰ نمونہ ہے ۔یوں تو اردو ادب میں اختر الایمان کی امتیازی و انفرادی حیثیت ایک شاعر کی ہے پھر بھی اس خو د نوشت کے پیش نظر ان کی نثری خدمات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ تحقیقی مقالہ اس آپ بیتی کی نمایاں فکری و فنی خصوصیات کو سامنے لانے کے حوالے سے ایک یادگار کوشش ہے۔

  • Title : مابعد جدید ادبی تھیوری: تسامحات اور تناقضات کے درمیان
    Author(s) : الطاف انجم
    KeyWords : بین العلومی ، ثقافتی صورت حال، اطلاعاتی تکنالوجی،مابعد الطبیعاتی ، تھیوری ، جنس پرستی ، مذہبی جنون
    View Full Paper
    View Abstract
    کائنات اور اس کے خارجی و داخلی مظہرات میں تغیر و تبدل کا عمل ایک جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ عمل انسانی زندگی کو نئے نئے تجربات و مشاہدات اور افکار و خیالات سے روشناس کرانے میں کلیدی رول ادا کرتا ہے۔1980 ء کے بعد گلوبلائزیشن اور انٹرنیٹ کے شور شرابے نے اس عمل کو مزید تیز کردیا جس کے نتیجے میں تما م گذشتہ روایات و تصورات اور عقائد و تفکرات متزلزل ہوگئے اور ایک نئی ثقافتی صورت حال نے عالم انسانیت کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔اس کو اصطلاحی مفہوم میں ”مابعد جدید صورت حال “ سے موسوم کیا گیا۔مابعد جدید یت نے نہ صرف عصر حاضر کے سیاسی ، تہذیبی اور علمی و لسانی میلانات کو ایک نیا رخ عطا کیا بلکہ ادبی منظر نامہ اور اس کے متعلقات کو بھی مناسب طور پر متاثر کیا۔روایتی ادبی نظریات کو ازسرِ نو دیکھنے اور پرکھنے کا چلن عام ہوااور بیشتر مطلق العنان تصورات پر سوالہ نشان قائم کیا گیا ۔اس تحقیقی مقالے میں مابعد جدید ادبی تھیوری کی کثیر الجہتی پر سے بالتفصیل مکالمہ قائم کیا گیا ہے اور بعض معاصر حلقوں کی طرف سے اس کے تئیں برتے جانے والے تناقضاتی رویے کی اصل حقیقت پر سے پردہ اٹھانے کی استدلالی کوشش کی گئی ہے ۔

  • Title : ترقی پسندی اور مارکسیّت :اشتراک و افتراق
    Author(s) : توصیف احمد ڈار
    KeyWords : مادّہ،سامراجیت، جاگیردارانہ نظام،جمالیاتی شعور، رجعت پسندی،قنوطیت، سرریلزم، آرٹ ، پرولیتاری، استعمال قدر
    View Full Paper
    View Abstract
    ”مارکسزم“ یا ”مارکسیّت“ ایک ایسا فلسفہ حیات ہے جس کے دیر پا اثرات زندگی کے ہر ایک شعبے پر پڑے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ نہ صرف مغرب بلکہ بیرون مغرب بھی بڑے بڑے سیاسی ، سماجی ، معاشی ، اقتصادی اور علمی و ادبی انقلابات کا موجب یہی فلسفہ رہا ہے۔مارکسزم کی بنیاد اگرچہ سیاسیات اور معاشیات سے متعلق تھی لیکن اس نے سماجیات کے کم و بیش تمام پہلوؤں کو بھی متاثر کیا ۔اردو زبان و ادب اور اس سے وابستہ قلم کار بھی اس فلسفے کے اثرات سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کے آغاز کا بنیادی محرک بھی یہی فلسفہ رہا ہے ۔لیکن ہندوستان اور ہندوستانی قوم کو اُس وقت جوسیاسی و سماجی ، اور معاشی و تعلیمی مسائل درپیش تھے اُن سے نبردآزما ہونے کے لیے مارکسی تعلیمات کو ایک نیا رُخ عطا کیا گیا ، جس سے مارکسیّت کی اصل بنیاد کو کسی حد ٹھیس بھی پہنچ گیا ۔اس مضمون میں مارکسیت اور ترقی پسند تحریک کے اصل مقاصد کے ساتھ ساتھ ان دونوں کے مشترکہ اور غیر مشترکہ پہلوؤں کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔