View Abstractاس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ جگر مرادآبادی کی زندگی کے مخصوص حالات ،اہم معاملات اور ان کی شخصیت کے اُن گوشوں کو زیر بحث لایاجائے ،جن سے ان کی نفسیات،ان کے مزاج ،ان کی پسند و ناپسنداور ان کے غالب رجحان کو سمجھنے میں مدد مل سکے ۔کہ کسی بھی فنکار کے فکر و تصورات کی تشکیل ،اس کے فنی اظہارکے نہج کے تعین اورفن پارے کی معیاربندی میں یہ عناصر نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔چونکہ جگر مرادآبادی کے یہاں حسن و عشق اور جذبات و احساسات کی فراوانی ہے اس لیے ہمارے ناقدین انھیں رومانی شاعر کہتے آئے ہیں۔اور ایسا کہنا کوئی غلط بھی نہیں ہے ، لیکن یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ ان کی رومانیت اختر شیرانی اور جوش ملیح آبادی کی رومانیت سے بالکل مختلف ہے۔ یوں کہ اختر شیرانی اور جوش ملیح آبادی کی رومانیت کا فی حد تک تصوراتی ہے، یا یوں کہیے کہ انھوں نے رومان کو حقیقت بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ، جب کہ جگر نے حقیقت کوہی اپنی زبان، اپنے اسلوب اوراپنی فنکاری سے رومانی رنگ و آہنگ عطا کیا ہے ۔ جگر کے یہاں حسن و عشق ، عاشق و معشوق اور جذبات و احساسات کا اظہار بھی اوروں سے الگ ہے، اور جگ بیتی اور سنی سنائی معلومات کے بجائے ان کی آپ بیتی،ان کے ذاتی تجربات اور حقیقت کی زمین سے نمو کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ جگرکی زندگی جیسی رنگین، جتنی دلچسپ،پُر کیف اور پُر سوز تھی ویسی ہی ان کی شاعری ہے۔جگر کی شاعری میں تصوف کے موضوعات بھی دریافت کیے گئے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہاں تصوف کے مقابلے سیاست کو کہیں زیادہ دخل ہے ، گوگہ ہمارے متعدد ناقدین نے جگر کی شاعری میں سیاست کے موضوع کا انکار کیا ہے ، یا اسے قابل اعتنا نہیں جانا۔ مگر جگر کے کلیات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے اخیر دور میںسیاست کو دانستہ اپنی شاعری کا موضوع بنایا، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ سیاست اور سیاسی موضوعات سے متعلق خاصی معلومات اور بصیرت رکھتے تھے۔حسن وعشق اور سیاست کے ساتھ جگر کی شاعری میںخمریات کے موضوع کونمایاں مقام حاصل ہے ۔شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ حسن ،عشق، شاعری اور شراب سے ہی جگر کی شخصیت تشکیل پاتی ہے اور ترفع حاصل کرتی ہے۔ بسااوقات تو ان کے یہاں محبوب اور شراب کے فرق کا حد فاصل مٹتا ہواسا محسوس ہوتا ہے ۔شاید اسی لیے ان کے یہاں شراب کابیان ایک نوع کی سنجیدگی، شائستگی، احترام اور شدید تجرباتی محسوسات سے معمور ہے ۔