Paper

  • Title : ادریہ
    Author(s) :
    KeyWords :
    View Full Paper

  • Title : غالب،غیر اور غیاب
    Author(s) : پروفیسر قدوس جاوید
    KeyWords : استعارہ ، غیاب ، اسلوبیاتی ، معنیاتی ، چشمک، صنائع بدائع،قحبہ خوانیت،فکریات و علمیات،لفظیاتی نظام ، علم اللسان، علم الاصوات، علم الاشتقاق، بیانیہ ، ابہام
    View Full Paper
    View Abstract
    اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی کے اختتام تک بڑی تعداد میں ایسی کتابیں ، مقالات اور مضامین وغیرہ سامنے آئے ہیں جن میں غالب کی شخصیت ، ان کے مزاج و مزاق ، ان کی فکر ، عہد اور زمانے ، منظوم و منثور کلام کے امتیازات کا ہر ہر پہلو سے جائزہ لینے کی کوشش کی جا چکی ہے ۔چند ایک سے ہر شخص واقف ہے ،مثلاً حالی کی ”یاد گارِ غالب، عبدالرحمن بجنوری کی محاسنِ کلامِ غالب، مجنوں گورکھ پوری کی ’غالب شخص اور شاعر ،نند لال کول طالب کاشمیری کی ’جوہرِ آئینہ ؛جائزہ کلام غالب ،شمس الرحمن فاروقی کی ’ تفہیم غالب اور گوپی چند نارنگ کی ’غالب ؛معنی آفرینی ،جدلیاتی وضع ،شونیتا اور شعریات “ ۔ ان میں سے ہر تصنیف اپنی اپنی جگہ غالب شناسی کا شاہکار مانی جاتی ہے ۔پھر بھی تحقیق و تنقیدکا دروازہ ہمیشہ کُھلا رہتا ہے اس لئے کسی کا فرمایا ہوا وقتی طور پر تو مستند ہو سکتا ہے ،مستقل اور دائمی نہیں ہو سکتا ۔ غالب نے یوں ہی نہیں کہا تھا ” میں عندلیبِ گُلشنِ نا آفریدہ ہوں “۔لہذا غالب کو بھی آج کے سماجی و سیاسی ، معاشی و ثقافتی حالات و حقائق کے تناظر میں ہی دیکھنا ہو گا ۔غالب کی حیات و شخصیت اور ان کی نثر و شاعری کے حوالے سے بہت سارے حقائق ایسے ہیں جو ہنوز وضاحت طلب ہیں اور جن سے متعلق اردو ادب سے وابستہ صف اول کے محققین و ناقدین نے اپنی متخالف اور متضاد تاویلیں تو پیش کی ہیں لیکن قارئین کی تشنگی کو تسلی عطا نہیں کر سکیں ہیں ۔ اس تحقیقی مضمون میں نمائندہ ماہرین غالبیات کی ناقابل فراموش خدمات کی نشاندہی کرتے ہوئے نسلِ نو کے ادب شناس اذہان کو کلامِ غالب میں چھپے غیاب پہلووں کی طرف توجہ مبذول کرانے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے ۔ یہ مضمون غالبیات کے سرمائے میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگا۔

  • Title : ذاتی تجربات و محسوسات کاشاعر: جگر مرادآبادی
    Author(s) : ابوبکر عباد
    KeyWords : حنفی المسلک۔معاشقے۔اصغر گونڈوی۔عیسائی خاتون۔تحصیلدار۔طوائف ۔مشن اسکول۔عاقل چشمہ فروش ۔داغ دہلوی۔حسن و عشق۔خمریات، شادیاں۔سیاسی اشعار۔کلاسیکی معیار۔متصوفانہ عقائد۔سہل ممتنع۔تغزل۔تہذیب و شائستگی۔فکری اجتہاد۔سیاسی اشعار ۔ وطن پرستی۔انتقال کی خبریں
    View Full Paper
    View Abstract
    اس مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ جگر مرادآبادی کی زندگی کے مخصوص حالات ،اہم معاملات اور ان کی شخصیت کے اُن گوشوں کو زیر بحث لایاجائے ،جن سے ان کی نفسیات،ان کے مزاج ،ان کی پسند و ناپسنداور ان کے غالب رجحان کو سمجھنے میں مدد مل سکے ۔کہ کسی بھی فنکار کے فکر و تصورات کی تشکیل ،اس کے فنی اظہارکے نہج کے تعین اورفن پارے کی معیاربندی میں یہ عناصر نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔چونکہ جگر مرادآبادی کے یہاں حسن و عشق اور جذبات و احساسات کی فراوانی ہے اس لیے ہمارے ناقدین انھیں رومانی شاعر کہتے آئے ہیں۔اور ایسا کہنا کوئی غلط بھی نہیں ہے ، لیکن یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ ان کی رومانیت اختر شیرانی اور جوش ملیح آبادی کی رومانیت سے بالکل مختلف ہے۔ یوں کہ اختر شیرانی اور جوش ملیح آبادی کی رومانیت کا فی حد تک تصوراتی ہے، یا یوں کہیے کہ انھوں نے رومان کو حقیقت بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ، جب کہ جگر نے حقیقت کوہی اپنی زبان، اپنے اسلوب اوراپنی فنکاری سے رومانی رنگ و آہنگ عطا کیا ہے ۔ جگر کے یہاں حسن و عشق ، عاشق و معشوق اور جذبات و احساسات کا اظہار بھی اوروں سے الگ ہے، اور جگ بیتی اور سنی سنائی معلومات کے بجائے ان کی آپ بیتی،ان کے ذاتی تجربات اور حقیقت کی زمین سے نمو کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ جگرکی زندگی جیسی رنگین، جتنی دلچسپ،پُر کیف اور پُر سوز تھی ویسی ہی ان کی شاعری ہے۔جگر کی شاعری میں تصوف کے موضوعات بھی دریافت کیے گئے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہاں تصوف کے مقابلے سیاست کو کہیں زیادہ دخل ہے ، گوگہ ہمارے متعدد ناقدین نے جگر کی شاعری میں سیاست کے موضوع کا انکار کیا ہے ، یا اسے قابل اعتنا نہیں جانا۔ مگر جگر کے کلیات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے اخیر دور میںسیاست کو دانستہ اپنی شاعری کا موضوع بنایا، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ سیاست اور سیاسی موضوعات سے متعلق خاصی معلومات اور بصیرت رکھتے تھے۔حسن وعشق اور سیاست کے ساتھ جگر کی شاعری میںخمریات کے موضوع کونمایاں مقام حاصل ہے ۔شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ حسن ،عشق، شاعری اور شراب سے ہی جگر کی شخصیت تشکیل پاتی ہے اور ترفع حاصل کرتی ہے۔ بسااوقات تو ان کے یہاں محبوب اور شراب کے فرق کا حد فاصل مٹتا ہواسا محسوس ہوتا ہے ۔شاید اسی لیے ان کے یہاں شراب کابیان ایک نوع کی سنجیدگی، شائستگی، احترام اور شدید تجرباتی محسوسات سے معمور ہے ۔

  • Title : ہندوستان میں اوپن ڈسٹنس لرننگ - ایک تجزیہ
    Author(s) : پروفیسر مشتاق احمد آئی پٹیل
    KeyWords : اوپن ڈسٹنس لرننگ، خواتین کی خصوصی یونیورسٹیاں، یونیورسٹیوں کے اقسام، رسمی تعلیم ، اوپن یونیورسٹی ،علاقہ ، ریجنل سینٹر
    View Full Paper
    View Abstract
    فاصلاتی تعلیم تعلیمی نظام کا ایک جز ہے، لیکن پھر بھی بہت پیچیدہ اور وسیع علاقہ ہے اس میں شریک حصہ دار طلباء، اساتذہ، تعلیمی ادارے، گورنمنٹ افسران، حکومتی پالیسیاں سبھی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں جو خود بھی اس طرز تعلیم کی تبدیلیوں کے زیر اثر ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ پچھلے چند سالوں میں (جن میں کووڈ-19 کا عرصہ بھی شامل ہے)، ان اداروں کا مظاہرہ کیسا رہا؟ اب ملک کے طول و عرض میں اداروں اور طلباءکی شرکت کیسی ہے؟ دیہی و شہری علاقوں میں طلباءاور بالخصوص لڑکیوں کا حصہ کیسا ہے؟ ریجنل سینٹرز طلباءتک پہنچنے کا اہم ذریعہ ہیں، وہ شہری و دیہی علاقوں میں قائم ہی۔ یونیورسٹیاں مختلف قسم کی اور مختلف مضامین سے منسلک ہیں ان میں کونسا طرزتعلیم استعمال ہو رہا ہے۔ انہی نکات کو سمجھنے کی کوشش اس آرٹیکل میں کی جا رہی ہے

  • Title : کلیات غنی "دفینہ سخن و بادہ کہن"
    Author(s) : ڈاکٹر معین الدین شاہین
    KeyWords : کلاسیکی شاعری، حامی قوم ، تذکرہ ، قلمی مسودہ ، کلیات ، تدوین ، تالیف ، جدت
    View Full Paper
    View Abstract
    غیر جانب دارانہ تحقیق و تنقید ادب کو زندہ رکھنے اور استحکامت عطا کرنے میں بنیادی رول ادا کرتے ہیں۔ یہ تحقیق و تنقید کا ہی خاصا کہ آئے روز ایسے نادر و نایاب قلمی نسخے منظر عام پر لائے جاتے ہیں جو ہر دو اعتبار ادب کے سرمائے میں اضافے کا موجب بن جاتے ہیں ۔کلیات غنیؔ کا شمار بھی انہیں نایاب قلمی نسخوں میں بدرجہ اتم ہوتا ہے ۔ یہ نسخہ محض بیس سال قبل محققین کے ہاتھ آیا جسے بعد میں تدوین و تالیف کے مراحل سے گزار کر کلیات کی صورت میں شائع کیا گیا ۔ زیر نظر تنقیدی مضمون میں کلیاتِ مذکورہ میں شامل شعری کلام سے متعلق تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو قارئین کو کلامِ غنی کی تفہیم و توضیح میں کسی قدر مدد گار ثابت ہوسکتا ہے ۔

  • Title : کشور ناہید:کلیات" دشت قیس میں لیلیٰ ".. ایک تانیثی قرات
    Author(s) : ڈاکٹر رضوانہ ارم
    KeyWords : صنفی استحصال، مزاحمت، گلوبلائزیشن، تانیثی تحریک، وجودی و تہذیبی تشخص، کنزیومرزم ، تانیثی شعور اور مغربی، تانیثی فکر، تعارف، نسائی لب و لہجہ برہنہ پا، جلتی ریت پر چلنا
    View Full Paper
    View Abstract
    احتجاج ،انحراف اور مزاحمت زندہ لہو ، باضمیر دل اور انصاف پسند ذہن کی عطا ہے۔ سالہا سال کی مظلومیت نے تانیثی تحریک کو جنم دیا۔ Feminism یا تانیثیت ایک ایسی اصطلاح ہے جو اپنے اندر بے پناہ گنجائش رکھتی ہے اور جس کی کوئی ایک تعریف ممکن نہیں ہے۔ تحریک نسواں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ہرسال نسائی وجود پر ڈھائے جانے والے قہر ، جسمانی، روحانی، اذہانی، نفسیاتی استحصال ، غصب شدہ حقوق پر مبنی مساوات اور عدم و انصاف کا مطالبہ کرتی ہے، چنانچہ میری ڈول اسٹون کرافٹ نے A vindication of the rights of women (1792) میں یہ سوال اٹھایا کہ — کیا انسانی حقوق و آزادی صرف مردوں کے لئے ہیں ؟ تانیثیت کے علمبرداروں میں رشید جہاں، عصمت چغتائی، فہمیدہ ریاض، قرةالعین حیدر، ترنم ریاض، شفیق فاطمہ، سارہ شگفتہ، رفیعہ شبنم عابدی، عنبریں رحمٰن اور بالخصوص کشور ناہید نے تانیثی فکر کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ کشور ناہید تانیثی لب و لہجے کی ایک قدآور شاعرہ، ادیبہ، مدیر ، اور مترجم صفحۃ¿ قرطاس پر معاشرتی اور صنفی نا برابری پر موئے قلم سے "احتجاج" رقم کرنے والی ہستی ہیں۔ گلوبلائزیشن اور صارفیت کے اس دور میں عورت کو اشتہار بنانے پر معترض ہیں۔ عورتوں کے ساتھ پیش آنے والے ہر طرح کے ناروا سلوک، جنسی تفریق، ادبی ناقدری، شخصی آزادی کو سلب کر لینے والی طاقتوں کے خلاف سینہ بہ سپر، جن کا اجتہاد محض قلمی نہیں بلکہ عملی بھی ہے، اور میری ڈول اسٹون کرافٹ کے سوال کا جواب تخلیقی اور عملی سطح پر مسلسل برجستہ اور برمحل لفظوں میں دے رہی ہیں کہ ایک انسان کے ذریعے دوسرے انسان کا استحصال ناقابل قبول ہے، خالق کون و مکاں نے نسائی وجود کو اشرف المخلوقات کے درجے سے خارج نہیں کیا ہے، لہذا کشور ناہید پر ۹۸۹۱ءمیں تحریر کردہ یہ مضمون" کشور ناہید ایک چیلنج "میں ڈاکٹر رشید امجد کہتے ہیں کہ”عورت اس کے یہاں (کشور ) استحصال زدگی کا ایک پیکر ہے جس کے ذریعے وہ بیک وقت مرد کی روایتی بالادستی اور پورے طبقاتی نظام کی جڑوں پر حملہ آورہوتی ہیں۔

  • Title : غالب اور اقبال: چند نئے مباحث
    Author(s) : ڈاکٹر عرفان عالم
    KeyWords : کلیدی الفاظ: اسلامی تعلیمات، طلسمی دریا، گوشہ نشینی ، فلسفہ حیات و کائنات
    View Full Paper
    View Abstract
    غالب اور اقبال اردو کی شعری روایت کے دو اہم نام ہیں۔دونوں شعرا پنی منفرد فکر اور طرزِ اسلوب کے حوالے سے اپنی شناخت قائم کرچکے ہیں۔بعض دانشورانِ ادب نے اقبال کو غالب کا معنوی فرزند تک قرار دیا ہے اور بعض کا ماننا یہ بھی ہے کہ غالب نے اقبال کے روپ میں نیا جنم لیا ہے ۔ ان خیالات کے پس پشت ایک فلسفہ اور استدلالی فکر ہے اور یہ فکر و فلسفہ ان دونوں شعرا کی اپنے اپنی معاصر زندگی سے اکتاہٹ ، ان کے اذہان میں موجزن جدت پسندی،فکر و خیال کی بلندی ، حال اور مستقبل کا گہرا اور پختہ شعوراور ادبی شعریات پر مکمل گرفت سے تشکیل پاتے ہیں۔اس مقالے میں راقم کی کوشش رہی ہے کہ اردو کے ان بلند پایہ تخلیق کاروں کے متون کی معاصر ثقافتی صورت حال کے تحت ایک نئی تعبیر پیش کی جائے اور یہ حقیقت واضح ہوسکے کہ دو ایک صدیاں گزرجانے کے باوجود بھی ان کی تخلیقات ترو تازگی کے احساس سے لبریز ہیں اور ہماری معاصر زندگی سے ہم آہنگ بھی۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جو ادبی تخلیقات کو زماں و مکاں کی قید سے آزاد کرکے آفاقیت اور ابدیت کا درجہ عطا کرتی ہیں۔

  • Title : مہاراشٹر کے معاصر نظم نگار
    Author(s) : ڈاکٹرشیخ احرار احمد
    KeyWords : شعلہ حنا ، کرب تنہائی ، مصائب زمانہ ، جنسی نا آسودگی ، غم روزگار ، جدیدیت ، احتجاجی لب و لہجہ ، صنعتی شہر
    View Full Paper
    View Abstract
    اردو ادب کی ترویج میں شہر ممبئ کے ناقابل فراموش کردار سے کوئی منکر نہیں ہوسکتا ہے ۔یہاں اردو کی شعری روایت کے نمونے پانچویں صدی عیسوی سے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ یہاں کے شعرا حضرات نے نظم کی مختلف اصناف کو اپنے اظہارِ خیالات کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔یوں یہاں نظم ، غزل ، مثنوی ، مرثیہ اور رباعی کے علاوہ دوسری اصناف شعر کی تاریخ بھی قدرے مستحکم و مضبوط ہے ۔ معاصر دور میں بھی یہاں کی ادبی روایت بڑی ذرخیز اور سرسبز و شاداب ہے ۔ دیگر اصناف سے قطع نظر نظم نگاری کی موجودہ صورت حال ہندوستان کیا دنیا کے دوسرے خطوں سے کسی بھی صورت کم وقیع نہیں ہے ۔ اس دعوے کو عملی طور پر حقیقی ثابت کرنے کے سلسلے میں یہ تحقیقی و تنقیدی مقالہ ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس مقالے کے مطالعے سے یقینی طور پر قارئین کرام مہاراشٹر میں نظمیہ شاعری کی روایت کی موجودہ صورت حال سے بھر پور واقفیت حاصل کر سکیں گے۔

  • Title : اکیسویں صدی میں جموں و کشمیرکی نظم نگاری (مرد شعرا کے حوالے میں)
    Author(s) : ڈاکٹر نصرت جبین
    KeyWords : فنی اظہار ، جمالیاتی و لسانی اظہار،ہئیت و تکنیک،باذوق قاری، سیاسی احتساب ، دستور زبان بندی
    View Full Paper
    View Abstract
    ریاست جموں و کشمیر میں اردو نظم کی موجودہ روایت قدرے توانا اور حوصلہ افزا ہے ۔اکیسویں صدی کی ان ابتدائی دہائیوں میںاس روایت کوجہاں اُن تخلیق کاروں نے نئی وسعتوں سے ہمکنار کیا ہے جو اس صدی سے قبل ہی ادبی اُفق پر نمودار ہوئے ہیں ، وہیں کئی ایک شاعر ایسے بھی سامنے آئے ہیں جنہوں نے مختصر مدت میں ہی اس سرمائے کو اپنی تخلیقی ہنرمندیوں سے جلابخشی ہے۔اردو نظم نگاری کو مختلف ہئیتوں اور تکنیکوں سے لیس کرنے اور انسانی زندگی و متعلقات زندگی کی تمام تر رنگا رنگیوں کو اس میں بہ خوبی سمونے میں یہاں کے تخلیق کاروں کا رول ناقابلِ فراموش ہے ۔مذکورہ ریاست سے وابستہ ایسے شعراو شاعرات کی ایک بڑی تعداد ہے جو معاصر نظمیہ روایت کو آگے بڑھانے میں پیش پیش ہیں لیکن اس تحقیقی مقالے میں خواتین تخلیق کاروں کے برعکس محض مرد نظم نگاروں کا تعارف اور ان کی فنی صلاحیتوں سے متعلق مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ ریاست جموں و کشمیر میں اردو نظم کے حالیہ منظر نامے سے قارئین بخوبی واقفیت حاصل کرسکیں گے۔

  • Title : غنی کی شاعری اور طرزتمثیل
    Author(s) : ڈاکٹر شاداب ارشد
    KeyWords : تمثیل ،غنی ، دعویٰ،دلیل،تشبیہ،شعر،مصراع،قانون فطرت
    View Full Paper
    View Abstract
    سبک ہندی کے نغز گفتار فارسی شعرا غنی کشمیری کو جوغیر معمولی شہرت و قبولیت عام نصیب ہوئی۔وہ ان کے ایرانی نژاد معاصرین کلیم،سلیم ،قدسی اور صائب جیسے شعرا کو بھی حاصل نہیں ہوئی۔صدیاں گذر جانے پر آج بھی غنی کے کلام کی سِحرانگیزی ان کے پڑھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے،اُن کے کلام میں اچُھوتے مضامین ،باریک و تازہ خیال ،تغزل،جدّت،استعارات ، ادائے بیان ،نت نئی ترکیبات ،شُستہ زبان ،اخلاق،فلسفہ،تصوّف وغیرہ ایرانی شعرا تک کو اپنا گرویدہ بناتے ہیں ۔لیکن غنی کی اصل شہرت تمثیل کی بدولت ہے۔تمثیل یا دعویٰ و دلیل یعنی ایک مصرعے میں دعویٰ کرنا اور قانون فطرت یا منا ظر قدرت سے ایک ہمہ گیر و آفاقی دلیل پیش کرنا غنی کا خصوصی امتیاز ہے۔بلکہ دیوانِ غنی میں ایسے کم ہی شعر دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں تمثیل موجودنہ ہو۔غنی نے مثالیہ شاعری کو اتنی ترقی دی کہ اسے ایک مستقل فن بنادیا ۔اور مدتوں غنی کی پیروی کو ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی مستحسن سمجھاجاتا رہاہے۔غنی کی تمثیل گوئی کا مثالاً پیش کےا جاتا تھا۔ چنان تمثیل را دادہ رواجی کہ از فکر غنی گیر د خراجی اس تحقیقی مقالہ کے ذریعے سے غنی کے کلام میں سب سے اہم اسلوبی خصوصیت یا ڈیوایث تمثیل ،کی ادبی تکنیک کی مختلف خصوصیات و استعمال پر بحث کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

  • Title : کلام اقبال پر فارسی شعراءکے اثرات
    Author(s) : ڈاکٹر شاہ نواز شاہ
    KeyWords : علّامہ اقبال، فارسی اشعار،
    View Full Paper
    View Abstract
    بر صغیر ہند وپاک کے عظیم المرتبت شعراءمیں علّامہ اقبال کامقام ایک درخشان ستارے کی مانند ہے اس کے ساتھ ساتھ فارسی ادب کی دنیا خاص طور پر ایرانیوں میں بھی ان کا ایک خاص اور منفرد مقام ہے۔علّامہ اقبال انسانیت کے غمخوار تھے یہی وجہ کہ آپ نے انسانیت کی بہبودی اور انسانیت کی بقا کی خاطربے شمار خواب اپنے ضمیر میں سجائے رکھے تھے جو وقتاً فوقتاً آپ نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل پر انسانیت کو بطور ھدیہ پیش کئے ہیں ان خوابوں میں سب سے پہلا خواب مسلم معاشرے کو خوابِ غفلت سے بیدارکرنا تھا۔ ان کی شخصیت ایک ایسے ستارے کی مانند ہے جس میں آسمان کی فضا اور حالات نے مذہبی سوچ کو روشن کیا ۔ اقبال کی شاعری کے بارے میں دو نکات اہم ہیں : پہلا فارسی زبان سے محبت اور دوسرا اسلام سے محبت ۔ اپنی فارسی اور اُردو نظموں میں وہ حکیم سنائی، شیخ محمود شبستری، حکیم ناصر خسرو، شیخ سعدی، حافظ شیرازی اور مولانا جلال الدین رومی جیسے عظیم المرتبت فارسی شاعروں سے بے حد متاثر تھے اور ان کی بعض نظموں کو ہوبہو علّامہ اقبال نے اپنے کلام میں جگہ دی ہے۔ اس مختصر مضمون میں راقم نے کلام اقبال پرچند فارسی شعراءکے اثرات کا ایک مختصر جائیزہ لینے کی کوشش پیش کی ہے۔

  • Title : قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں قومی یکجہتی و مشترکہ تہذیبی عناصر کا اجمالی جائزہ
    Author(s) : ڈاکٹر حسینہ خانم (علیگ)
    KeyWords : تعلق داری نظام ، فیوڈل سماج، جاگیردارانہ نظام ، گنگا جمنی تہذیب، کنیادان ، قومی یکجہتی ، موریہ سلطنت، بھگت ، بھجن ، بھگتی تحریک
    View Full Paper
    View Abstract
    اردو ادب میں جس قدر ہندوستان کے مشترکہ تہذیب اور یہاں کی قومی یکجہتی کی ترجمانی ہوئی ہے ، کسی دوسری زبان میں تخلیق شدہ ادب اس کی ہمسری نہیں کرسکتا ہے ۔ اردو ادب سے وابستہ اگرچہ کم و بیش ہر تخلیق کار کا یہ امتیاز رہا ہے کہ انہوں نے ہندوستان کی صدیوں سے قائم تہذیبی و ثقافتی روایت کی رنگینیوں کی خاکہ کشی بڑے فن کارانہ اسلوب میں پیش کی ہے لیکن بعض تخلیق کار ایسےبھی ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی اور پورا ادبی سرمایہ اسی تہذیب و ثقافت ، اس کی انفرادیت ، مقبولیت ، خصوصیات و امتیازات وغیرہ کی ترجمانی کے لیے مختص کیے ہیں ۔ ان تخلیق کاروں میں ایک اہم اور سرِ فہرست نام "قرۃ العین حیدر" کا ہے ۔ حیدر اردوکی ادبی تاریخ میں اپنا ایک الگ مقام و مرتبہ رکھتی ہیں ۔ ان کی تخلیقات ہندوستان کی تاریخ و تہذیب کا زندہ جاوید مرقع ہیں ۔اس مقالے میں موصوفہ کے ناولوں میں قومی یکجہتی اور مشترکہ تہذیبی عناصر کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

  • Title : عمل قرات کی مبادیات اور چند نمونہ جاتی اطلاقی رویے
    Author(s) : شاکر علی صدیقی /عبداللہ امتیاز احمد
    KeyWords : فن پارہ، شعریات، نقد، عملی تنقید، فیض، تنہائی
    View Full Paper
    View Abstract
    ”عمل قرأت کی مبادیات اور چند نمونہ جاتی اطلاقی رویے“ بنیادی طور اصولِ نقد، انطباقِ نقد، مراحلِ نقد کا ایک نظری اور عملی نمونہ ہے۔ اس میں تین اہم نقطوں کی خاص طور پر وضاحت کی گئی ہے، اول: فن پارہ کی توصیف اور تشکیل ہمیشہ اپنے فن اور موضوع کو ہی محیط ہوگی اور منتخبہ فن پارہ اپنے استخراجی یا استقرائی اصولوں سے ہی اپنی شناخت قائم کرے گا۔ یہ شناخت شعریات کہلاتی ہے ۔دوم: کسی ایک اصول یا کلیہ کی روشنی میں عملِ قرأت کا مرحلہ طے نہیں ہوسکتا، کیوں کہ تمام اصناف اپنے معینہ اختصاص اور امتیازات کی حامل ہوتی ہیں۔ لہذا فن پارے کی با معنی قرات اسی وقت ممکن ہے جب وہ احاطۂ خاص پر منحصر ہو۔ سوم: ناقد-قاری کے نظریۂ تخصیص کے باعث متن پر اطلاقی رویے تبدیل ہوتے رہیں گے، کیوں کہ ناقد جس مکتبِ فکر کا حامل ہوگا وہ اسی تناظر میں فن پارے کا تجزیہ کرے گا لیکن وہ زیرِ تجزیہ فن پارے کی شعریات سے منحرف نہیں ہو سکتا۔ انہیں تینوں اصولوں کو نظام نقد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کی توضیح میں روایتی، عصری، انفرادی اور فنی وسائل کا خاص دخل ہے جو ناقد کی بصیرت اور آگہی پر مشتمل ہے۔ نتائج: ادبی متن محض ایک یا مخصوص پرت میں مقید نہیں ہوتا بلکہ معنی کی تہہ در تہہ سطحوں میں کارفرما ہوتا ہے۔ فیض احمد فیض کی مشہور ”نظم تنہائی“ کا اطلاق کرکے انہیں مذکورہ بالا معروضات کو مدلل اور مبرہن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس سے معنی کئی صورتوں میں مترشح ہوگیا ہے۔

  • Title : شاد عظیم آبادی:اصلاحی ناولوں کا نذیر ثانی
    Author(s) : ڈاکٹر محمد یونس ٹھوکر
    KeyWords :
    View Full Paper
    View Abstract
    شاد عظیم آبادی اردو کے ایک بلند پایہ شاعر مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اصناف ادب میں طبع آزمائی کرکے اپنی تخلیقی ثروت مندی کا ٹھوس ثبوت پیش کیا۔ ایسے شاعروں کی تعداد انگلیوں پر گننے کے لائق ہے جنہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ فکشن میں بھی طبع آزمائی کرکے اپنے افتاد طبع کی رنگا رنگی کا مظاہرہ کیا۔ شاد عظیم آبادی کا تعلق ادیبوں کی اسی قبیل سے ہے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ فکشن کے میدان میں بھی اپنے تخلیقی صلاحیتوں کے بند پانیوں کو جوئے آب عطا کرنے کی ایک صورت نکالی۔ناول نگاری کے میدان میں ڈپٹی نزیر احمد نزیر نے جو اصلاحی نالوں کی روش نکالی ، آپ اسی روش کی پیروی کرتے ہوئے محسوس کیے جاسکتے ہیں۔

  • Title : ناول” بستی“: ایک ناسٹلجیائی مطالعہ
    Author(s) : ڈاکٹر اسماءبدر
    KeyWords : ہجرت، ثقافت ، ذاتی تشخص ، مہاجرین ، ناسٹلجیا
    View Full Paper
    View Abstract
    ناسٹلجیا ادب کا ایک اہم اور بنیادی فکری رجحان کی صورت اختیار کرگیا ہے ۔ اردو ادب کا بیشتر سرمایہ ماضی ، ماضی کی تلخ و خوشگوار یادوں ، تجربات اور وابستگیوں وغیرہ کو محیط ہے ۔ ناول جو اردو فکشن کا سب سے وسیع اور طاقت ور بیانیہ ہے ، میں بھی اس رجحان کی تمام تر باریکیوں کو مختلف انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ 1947کے بعد ابھرنے والے ناول نگاروں میں انتظار حسین کی تخلیقات اردو ادب کی روایت میں شاہ کار کا درجہ رکھتی ہیں ۔ مجموعی طور پر ان کے ناولوں میں جو موضوع غالب صورت میں سامنے آیا ہے وہ یقینا ناسٹلجیا اور اس سے وابستہ دوسرے اہم عناصر ہیں ۔ اس حوالے سے ناول”بستی“ کا مطالعہ بہترین نتائج کا حامل ثابت ہوسکتا ہے۔

  • Title : جموں وکشیمر میں اُردو تنقید کا عصری منظر نامہ نظریاتی تنقید پر ایک مخاطبہ
    Author(s) : ڈاکٹر الطاف انجم
    KeyWords : اسلوبیاتی پہلوداری، تعلقاتی تنقید،تھیوری ، تنقیدی استدلالیت، نظریاتی یورش
    View Full Paper
    View Abstract
    ارود میں ادب فہمی کی روایت کا آغازاٹھارویں صدی میں لکھے گئے تذکروں سے ہوتے ہوئے آج اکیسویں صدی میں رائج مابعد جدیدیت تنقیدی تھیوری کے مباحث تک اپنی کئی بہاریں طے کرچکی ہے ۔اس درمیان کئی ایک سنجیدہ قارئین نے انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنی ادبی فہم و فراست اور تجربے و مشاہدے کے مطابق ادبی تخلیقات کی تشریح و توضیح پیش کرنے کی یادگار کوششیں کی ہیں ۔اس حوالے سے ریاست جموں و کشمیر سے وابستہ تنقید نگاروں کی خدمات بھی قابل تحسین ہےں۔ اس سرزمین سے ایسے ادبی نقاد ابھرے ہیں جنہوں نے نظریاتی سطح پر اردو تنقید کے میدان کو نمایاں وسعت عطا کرکے بین الاقوامی سطح پراپنی انفرادیت قائم کی ہے۔اس مقالے میں ریاست جموں و کشمیر سے وابستہ ان تنقید نگاروں کی خدمات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جنہوں نے نظریاتی سطح پر اردو تنقید کو متاثر کیا ہے۔

  • Title : جدیدیت کے مباحث اور اردو ادب
    Author(s) : ڈاکٹر توصیف احمد ڈار
    KeyWords : کلیدی الفاظ:ترقی پسندی ، اشتراکیت ، اجتماعیت ، اینٹی پلاٹ ، تجریدیت ، آزاد تلازمہ خیال،نشاة الثانیہ
    View Full Paper
    View Abstract
    اردو ادب اپنی ابتدا سے ہی مختلف تحریکات و رجحانات کے زیر سائے پنپتا اور نشونما پاتا رہا ہے ۔ ان تحریکات و رجحانات نے جہاں زندگی کے بقیہ شعبہ جات میں تغیر و تبدل پیدا کیا اور سوچ و فکر کو ایک نئی سمت عطا کی وہیں ادب بھی ان کی اثر پذیری سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔ علی گڑھ تحریک ، رومانیت و حقیقت پسندی کا رجحان ، ترقی پسند تحریک ، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا نام اس سلسلے میں پیش پیش ہے۔یہ تما م تحریکات و رجحانات اپنا ایک الگ اور منفرد فلسفہ رکھتے ہیں ۔ زندگی اور زمانے کو دیکھنے پرکھنے کا اپنا ایک انوکھا معیار رکھتے ہیں ۔ اردو ادب میں جدیدیت کا آغاز بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے آس پاس ہوجاتا ہے اور کم و بیش دو تین دہائیوں تک ادبی منطرنامہ اس کے فکر و فلسفے سے متاثر ہوکر ہئیتی و تکنیکی سطح پر نئے نئے تجربات سے ہمکنار ہوتا ہے ۔ اس مضمون میں جدیدیت کے بعض اہم یا بنیادی مباحث سے متعلق مکالمہ قائم کیا گیا ہے اور اردو ادب کی جملہ اصناف میں در آئی تبدیلیوں کو مثالوں کے حوالے سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔